غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ میں وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البرش نے کہا ہے کہ قابض فوج جان بوجھ کر بے گھر افراد کے خیموں کو براہ راست نشانہ بنا کر بچوں اور خواتین کو قتل کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شہید ہونے والے بچوں کی تعداد 17 ہزار 954 اور خواتین شہداء کی تعداد 12 ہزار 365 تک پہنچ گئی ہے۔
البرش نے منگل کے روز میڈیا کے بیانات میں کہا کہ رواں سال کے آغاز سے اب تک 52 سے زائد بچے غذائی قلت کے نتیجے میں شہید ہو چکے ہیں اور 17 بچے شدید سردی کی وجہ سے جان سے گئے۔
غزہ میں وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البرش نے بتایا کہ قابض فوج نے 20 ہسپتالوں کو بند کر دیا ہے اور صرف 18 ہسپتال جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔
قابض فوج نے 1400 سے زائد ہیلتھ ورکرز کو شہید کیا اور ڈاکٹر حسام ابو صفیہ سمیت تقریباً 360 دیگر کو گرفتار کیا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ 22,000 مریضوں کو بیرون ملک علاج کی اشد ضرورت ہے جن میں 13,000 ایسے ہیں جنہیں جان بچانے کے لیے فوری طور پر بیرون ملک منتقل کرنا ضروری ہے۔ غزہ کی پٹی میں کم از کم 60,000 بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
غزہ میں وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے کہاکہ قابض فوج نے 1400 سے زائد ہیلتھ کیئر ورکرز کو شہید اور تقریباً 360 کو گرفتار کیا ہے جن میں ڈاکٹر حسام ابو صفیہ بھی شامل ہیں۔
البرش نے غزہ میں جاری نسل کشی کی جنگ اور اسرائیلی جنگی جرائم پر عالمی برادری، مسلمان ملکوں اور عرب ممالک کی طرف سے اختیار کردہ خاموشی کو مجرمانہ قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی لاپرواہی ترک کرنے پر زور دیا۔
اسی تناظر میں غزہ میں ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر فادی المدعون نے اخباری بیانات میں کہا ہے کہ ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں صحت کی صورتحال عملی طور پر تباہ ہو رہی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ غزہ میں 50,000 بیمار اور زخمی مریضوں کو فوری آپریشن کی ضرورت ہے اور ہزاروں بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
امریکی اور یورپی حمایت کے ساتھ قابض اسرائیل 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی میں نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں 168,000 سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ ان کے علاوہ 14,000 سے زیادہ لاپتہ ہیں۔