غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) انسانی حقوق کی تنظٰم ’یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر ‘نے غزہ کی پٹی کے جنوب میں خان یونس میں فلسطینی صحافیوں کے خیمے میں موجود فلسطینی صحافیوں کے خلاف پیر کی صبح سویرےقابض اسرائیلی فوج کی جانب سے براہ راست بمباری کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔
یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر فیلڈ ٹیم نے فلسطین ٹوڈے کے نامہ نگار حلمی الفقعاوی اور پریس اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے والے شہری یوسف الخزندر کی شہادت کی تصدیق کی جبکہ اس جارحیت میں نو دیگر صحافی زخمی بھی ہوئے، جن میں فوٹو جرنلسٹ حسن اصلیح بھی شامل ہیں، جنہیں مختلف درجے کی چوٹیں آئیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ قابض اسرائیلی حملہ صحافیوں کے خیمے پر براہ راست اور پیشگی انتباہ کے بغیر کیا گیا جس کی وجہ سے متعدد صحافی زخمی ہوگئے اور اس کے بعد انہیں آگ لگ گئی ۔ خان یونس میں ناصر ہسپتال کے قریب کی گئی اس وحشیانہ کارروائی کےہولناک مناظر ساری دنیا نے دیکھے۔ یہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی صحافیوں کے خلاف تازہ ترین منظم جرائم میں سے ایک ہے۔
اس بھیانک جرم کے بعد قابض اسرائیلی فوج نے ایک بیان جاری کیا جس میں اعتراف کیا گیا کہ اس نے صحافی حسن اصلیح کو قتل کرنے کے ارادے سے صحافیوں کے خیمے کو نشانہ بنایا تھا۔ بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ اصلیح کا تعلق ایک فلسطینی دھڑے سے تھا اور وہ ایک میڈیا کمپنی کے مالک کے طور پر ایک صحافی کے طور پر کام کرتا تھا۔ تاہم، اس نے ان دعوؤں کی حمایت کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
صحافی اصلیح اپنے صحافتی کام اور غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جرائم کی وجہ سے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی طرف سے بار بار اشتعال انگیز مہمات کا نشانہ بنے ہیں۔
یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر کے قانونی شعبے کی ڈائریکٹر لیما بسطامی نے کہا ہے کہ “غزہ میں ایک صحافی کو زندہ جلانے کا مقصد سچائی کو خاموش کرنا ہے۔اسرائیل پہلے ہی ایک بہت بڑی طاقت پر انحصار کرتا ہے: وہ طاقت دنیا کی مجرمانہ بے حسی اور منافقانہ خاموشی ہے‘۔
بسطامی نے مزید کہا کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی صحافیوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنانا انہیں ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ “آپ کی سچائی کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ہم آپ کو کیمرے ہاتھ میں لینے کی پاداش میں مار سکتے ہیں اور آپ کو کوئی نہیں بچائے گا”۔
بسطامی نے ان طریقوں کو “طاقت کا مظاہرہ اور استثنیٰ کا عملی اعلان” قرار دیا۔
یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے تصدیق کی کہ صحافی حسن اصلیح کو نشانہ بنانے کے حوالے سے قابض اسرائیل کے الزامات، چاہے وہ قابل فہم ہی کیوں نہ ہوں، کسی بھی طرح سے اس کے ہدف یا قتل کا جواز نہیں بنتے۔ صحافیوں کو بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے، جس میں 1977 کے جنیوا کنونشنز کا پہلا اضافی پروٹوکول بھی شامل ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ شہری بشمول صحافی جنگ زدہ علاقے میں اپنا پیشہ ورانہ کام انجام دے سکتے ہیں اور انہیں قانونا تحفظ حاصل ہوگا‘۔
انہوں نے وضاحت کی کہ عسکری نامہ نگار کے طور پر درجہ بندی کرنے والے صحافی کو بھی حملے کا جائز ہدف نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ وہ براہ راست جنگ میں حصہ نہ لے۔ یہ حقیقت اسرائیل نے ثابت نہیں کی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی دستاویزی ثبوت فراہم کیا ہے۔ لہذا صحافی اصلیح کو نشانہ بنانا مسلح تصادم کے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے اور یہ خود ایک مکمل بین الاقوامی جرم ہے جس کے لیے بین الاقوامی قانونی چارہ جوئی اور جوابدہی کے ساتھ مجرم دشمن کو کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے‘۔
یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے کہا کہ اسرائیل نے صرف اس سال کے آغاز سے کم از کم 15 فلسطینی صحافیوں کو قتل کیا ہے، جو کہ غزہ کی پٹی میں ہونے والی نسل کشی سے منسلک ہے۔