واشنگٹن (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) فلسطینی نژاد محقق اور کولمبیا یونیورسٹی کے سرگرم طالب علم محمود خلیل کو بالآخر 104 دنوں کی غیرقانونی اور سیاسی قید کے بعد رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی امریکی محکمہ داخلی سلامتی کی تحویل سے ایک وفاقی عدالت کے حکم پر عمل درآمد کے بعد ممکن ہوئی۔
محمود خلیل جنہوں نے غزہ پر قابض اسرائیل کی مسلط کردہ درندگی کے خلاف ہونے والے پُرامن مظاہروں میں نمایاں کردار ادا کیا 8 مارچ کو نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں واقع یونیورسٹی ہاسٹل سے اس وقت گرفتار کیے گئے جب وہ فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر رہے تھے۔ ان کی گرفتاری امریکہ میں اظہارِ رائے کی آزادی پر حملے کے مترادف تھی، جس نے امریکی معاشرے میں ایک نئی بحث کو جنم دیا۔
قابض اسرائیل کے حامیوں کے دباؤ میں آ کر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان مظاہروں کو “یہود دشمن” قرار دیتے ہوئے غیر ملکی طلبہ کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی تھی۔ محمود خلیل اس اعلان کا پہلا نشانہ بنے، حالانکہ وہ امریکہ میں قانونی طور پر مقیم تھے۔
عدالت میں سماعت کے دوران جج مائیکل فاربیارز نے یہ کہہ کر محمود خلیل کی رہائی کا حکم جاری کیا کہ حکومت یہ ثابت نہیں کر سکی کہ وہ سماج کے لیے کسی قسم کا خطرہ ہیں یا فرار ہو سکتے ہیں۔
جج نے اپنے فیصلے میں واضح الفاظ میں کہا، “ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہاجرین سے متعلق قانون کو ایک سیاسی رائے رکھنے والے شخص کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جو کہ آئینی خلاف ورزی ہے”۔
دوسری طرف وائٹ ہاؤس نے وفاقی عدالت کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ ترجمان نے کہا، “نیو جرسی کے مقامی جج کا فیصلہ بے بنیاد ہے، وہ محمود خلیل کی رہائی کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔ ہم اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے اور خلیل کو ملک سے نکالنے کی بھرپور کوشش جاری رکھیں گے۔”
یاد رہے کہ محمود خلیل نے اس سے قبل واضح کیا تھا کہ ان کی گرفتاری محض اس بنیاد پر عمل میں آئی کہ انہوں نے قابض اسرائیل کے مظالم پر خاموش رہنے سے انکار کر دیا، جو کہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کی صریح خلاف ورزی ہے۔
یہ واقعہ امریکہ میں فلسطینیوں کے خلاف جاری تعصب، اظہار رائے کی آزادی پر قدغن، اور قابض اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے غیر منصفانہ اقدامات کا واضح عکاس ہے۔