استنبول (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) استنبول میں جمعرات کے روز ایک بین الاقوامی گول میز کانفرنس کا آغاز ہوا جس کا مقصد قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے اجتماعی قتل عام اور مقدس مقامات پر بڑھتے ہوئے خطرات کی سنگینی کو اجاگر کرنا تھا۔
کانفرنس کا افتتاحی اجلاس استنبول کے تاریخی “چراغان پیلس” میں ہوا۔ یہ اجلاس یورپی مسلم فورم، القدس انٹرنیشنل فاؤنڈیشن، عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین، ریاستِ فلسطین اور ترکیہ کی “وقف برائے مطالعات” کے تعاون سے منعقد ہوا، جیسا کہ خبر رساں ادارے اناضول نے بتایا۔
اجلاس میں یورپی مسلم فورم کے سربراہ عبد الواحد نیا زوف، یہودی مذہبی رہنما اور “ناطوری کارتا انٹرنیشنل” کے معروف سرگرم کارکن اسرائیل ڈیوڈ وائس، عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے سربراہ علی محی الدین قرہ داغی، فلسطین کے مفتی اعظم شیخ محمد احمد حسین، سیاسی جماعتوں کے نمائندوں، سول سوسائٹی تنظیموں، کارکنوں اور بڑی تعداد میں مندوبین نے شرکت کی۔
افتتاحی خطاب میں عبد الواحد نیا زوف نے قطر اور اس کے عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کیا جنہیں قابض اسرائیلی فوج کے فضائی حملے کا سامنا کرنا پڑا جس نے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے وفد کے دفتر کو نشانہ بنایا۔
نیا زوف نے کہا کہ قابض اسرائیل نے پورے مشرق وسطیٰ میں دہشت اور درندگی پھیلا رکھی ہے اور آج وہ مقدس مقامات کو بھی اپنی نسل کشی کی آگ میں جھونکنے پر تلا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم دنیا ایک “خاموشی کے بحران” کا شکار ہے حالانکہ ضروری ہے کہ اسرائیل کے خطرناک عزائم کو پہچانا جائے۔ نیا زوف نے واضح کیا کہ غزہ میں اجتماعی نسل کشی بدستور جاری ہے اور قابض اسرائیل اب براہِ راست مقدسات پر حملہ آور ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام صرف اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اقوامِ متحدہ مقدسات پر ہونے والے حملوں کے خلاف عملی موقف اختیار کرے گی۔
انہوں نے کہاکہ “ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین ایک آزاد ریاست بنے۔ ہم مسلمان ترک عوام کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ آپ کی مدد کے بغیر نہ امن قائم ہوگا نہ مسجد اقصیٰ کا تحفظ ممکن ہے”۔
انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا کہ تینوں الہامی مذاہب کے حقوق کا احترام لازمی ہے اور اس کانفرنس کے ذریعے وہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے مطالبے کی آواز مزید بلند کریں گے۔
یہودی رہنما اسرائیل ڈیوڈ وائس نے اپنی تقریر میں کہا کہ قابض اسرائیل کے مظالم کا یہودیت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “صیہونی نہ خدا کو مانتے ہیں نہ تورات کا احترام کرتے ہیں۔ وہ دنیا کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ یہودیت کی نمائندگی کرتے ہیں، حالانکہ صیہونیت اور یہودیت دو الگ حقیقتیں ہیں۔ ہم یہودی ربّی غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں”۔
انہوں نے قابض اسرائیل کو جعلی ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کے یہودی مسلمانوں کی اذیت اور دکھ کو دیکھ رہے ہیں اور اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وائس نے بتایا کہ انہوں نے ان حملوں کے خلاف احتجاج بھی کیا اور سخت دھمکیاں اور حملے بھی جھیلے لیکن صیہونی انہیں خوفزدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
علی محی الدین قرہ داغی نے کہا کہ فلسطینی قتل عام اور جبری بے دخلی کا شکار ہیں اور قابض اسرائیل نے تمام سرخ لکیروں کو پامال کر ڈالا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ پر مسلسل بمباری نے وہاں کا کوئی ایک انچ بھی باقی نہیں چھوڑا اور انسانیت کو لرزا دینے والے جرائم پوری دنیا کی خاموشی کا منہ چڑا رہے ہیں۔
اجلاس میں برطانوی لیبر پارٹی کے سابق سربراہ جیرمی کوربن نے آن لائن شرکت کرتے ہوئے کہا کہ قابض اسرائیل کا دوحہ پر حملہ فائر بندی کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اب وہ پوری دنیا کو دھمکیوں میں جکڑ رہا ہے جس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ “ادھر پانی اور کھانے کا نام و نشان نہیں اور لوگ بھوک سے مر رہے ہیں جبکہ قابض اسرائیل کے دوسری طرف آسودگی اور خوش حالی ہے”۔