غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ میں اب ہجرت کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں رہا بلکہ یہ فلسطینی زندگی کی روزمرہ حقیقت بن چکا ہے۔ جیسے ہی قابض اسرائیلی افواج کی جانب سے خطرے کے سائرن بجتے ہیں یا جبری انخلاء کے احکامات صادر ہوتے ہیں، غزہ کے مظلوم خاندان ایک اور سفرِ دربدری پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ سفر خوف، تھکن اور مجبوریوں کے بوجھ تلے دبے اجسام اور بوجھل دلوں کے ساتھ ہوتا ہے، کبھی چند سامان کے ٹکڑوں کے ساتھ اور کبھی بالکل خالی ہاتھ۔
شہر کی سڑکیں کھلے آسمان تلے نیند اور انتظار کے ٹھکانے بن چکی ہیں۔ بے گھر عوام زمین کو بستر اور آسمان کو اوڑھنا بنا کر شب و روز گزارتے ہیں۔ کچھ خوش نصیب ایک کمزور سا خیمہ کھڑا کر پاتے ہیں جو دھوپ اور ہوا سے بمشکل بچاتا ہے، لیکن بیشتر لوگ بے سہارا و بے چھت ہیں۔ وہ کبھی اجڑے گھروں کے ملبے کے درمیان پناہ ڈھونڈتے ہیں اور کبھی گرتی دیواروں سے لپٹ کر جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہجرت کی قیمت خود ایک اذیت بن گئی ہے۔ شہر غزہ سے جنوب کی طرف نکلنے کے لیے اوسطاً دو ہزار ڈالر درکار ہیں جن میں کرایہ، ایک کچا سا خیمہ اور کسی قدر علاج معالجے کی سہولت شامل ہے، لیکن بیشتر خاندانوں کے پاس اتنے وسائل نہیں۔ ان کی جیبوں میں موجود چند کرنسی نوٹ روزانہ کا کھانا بھی مشکل سے پورا کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہزاروں لوگ بمباری کے سائے میں ٹھہرے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ ہجرت ان کے بس سے باہر ہے۔
قابض اسرائیل کا تباہی اور جبری ہجرت کا منصوبہ
قابض اسرائیل گذشتہ ایک ماہ سے مسلسل یہ کوشش کر رہا ہے کہ غزہ کو اس کے باسیوں سے خالی کرایا جائے اور انہیں زبردستی جنوبی علاقے کی طرف دھکیلا جائے تاکہ شہر کو مسمار کر کے اپنی عسکری گرفت مضبوط کی جا سکے۔
چند ہی دنوں میں قابض اسرائیل نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی۔ ایک ہزار چھ سو سے زیادہ رہائشی ٹاور اور بلند و بالا عمارتیں مکمل طور پر زمین بوس کر دی گئیں، دو ہزار سے زائد کو شدید نقصان پہنچایا گیا اور تیرہ ہزار سے زیادہ خیمے جو مہاجرین کو پناہ دیتے تھے ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے۔ صرف ستمبر سنہ2025ء کے آغاز سے اب تک، ستر رہائشی ٹاورز مکمل طور پر اڑا دیے گئے اور ایک سو بیس عمارتوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا، ساتھ ہی ساڑھے تین ہزار سے زائد خیمے بھی تباہ کر دیے گئے۔
مارچ کے وسط سے جب قابض اسرائیل نے جنگ بندی سے انحراف کیا غزہ ایک نئی ہجرت کے طوفان میں جھونک دیا گیا۔ اعداد و شمار لرزا دینے والے ہیں۔ انیس لاکھ سے زائد فلسطینی یعنی غزہ کی کل آبادی کا نوے فیصد اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ جنوبی علاقہ اس وقت تیرہ سے پندرہ لاکھ مہاجرین کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ اب نئے خیمے لگانے کی جگہ باقی نہیں رہی، انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، پینے کے پانی اور نکاسی کا نظام بھی ٹوٹنے کے دہانے پر ہے۔
انسانیت کے نام پر کوئی محفوظ پناہ نہیں
قابض اسرائیل کی جانب سے بار بار نام نہاد “محفوظ انسانی علاقے” قرار دیے جانے والے مقامات پر بھی فلسطینی عوام کو کوئی تحفظ میسر نہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اسرائیلی بمباری ان کا پیچھا کرتی ہے۔ سکولز فوجی اڈوں میں بدل گئے، پناہ گاہیں غیر محفوظ ہو گئیں، حتیٰ کہ وہ راستے جن پر لوگ جان بچانے نکلتے ہیں میزائلوں کا نشانہ بن گئے۔
انروا نے انتباہ دیا ہے کہ مہاجرین کے کیمپ حد درجہ بھر گئے ہیں، بیماریاں پھیل رہی ہیں اور امدادی سامان بارڈر پر رکا ہوا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ فلسطینیوں کی یہ جبری ہجرت عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بذاتِ خود جنگی جرم ہے۔
لیکن اعداد و شمار کے پیچھے انسانی المیے ہیں: وہ بچے جو دو سال میں تیسری، چوتھی یا دسویں بار ہجرت پر مجبور ہیں، وہ عورتیں جو میلوں دور پانی یا دوا کی تلاش میں سرگرداں ہیں، وہ بزرگ جو اپنی اجڑی چھت کے سائے میں مرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ نامعلوم صحرا میں دربدر نہ ہوں۔
آج، سات سو دس دنوں سے جاری اس وحشیانہ جنگ نے غزہ کے عوام پر ایک نئی اور مزید کڑی نیکبہ مسلط کر دی ہے۔ ان کی زندگی کے ہر حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے: گھر چھین لیا گیا، پانی اور دوا چھین لی گئی، امن اور بقا چھین لی گئی۔
اس تاریکی کے بیچ ایک سوال بدستور چیخ رہا ہے: آخر کب تک غزہ کے لوگ اس جبری ہجرت کے فیصلے پر مجبور رہیں گے، اور کب تک دنیا انہیں اس بے رحم جنگ کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھے گی؟