Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

پیاس سے بلکتی غزہ:پانی پانی پکارتےدم توڑتے معصوم بچے جن کی فریاد سننے والا کوئی نہیں

غزہ  (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کے بے گھر فلسطینی، کڑی دھوپ میں، پانی کی ایک بوند کے لیے گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔ ان کے لیے صاف اور محفوظ پانی کا حصول اب ایک خواب بن چکا ہے۔ اسرائیلی ریاست کی جانب سے گذشتہ بیس ماہ سے جاری قتل عام نے زندگی کی بنیادی ضرورت “پانی” کو ایک ناقابلِ حصول نعمت میں بدل دیا ہے۔

قابض اسرائیل کے ٹینکوں اور بمباری نے غزہ کی آبی نظام کی جڑیں اکھاڑ دی ہیں۔ پانی کی لائنیں، کنویں، فلٹریشن پلانٹس سب ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ نتیجتاً، اب یہاں صاف پانی تک رسائی تقریباً ناممکن ہو چکاہے۔

پہلے ایک فرد روزانہ اوسطاً 84.6 لیٹر پانی استعمال کرتا تھا، مگر اب یہ مقدار صرف 3 سے 5 لیٹر یومیہ رہ گئی ہے، جو عالمی ادارۂ صحت کی ایمرجنسی میں تجویز کردہ کم از کم مقدار 20 لیٹر سے کہیں کم ہے۔

یہ کمی محض ایک عددی بحران نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔ نہانا، ہاتھ دھونا، بچوں کو صاف رکھنا سب کچھ اب ایک خواب بن چکا ہے۔ کیمپوں میں بیماریوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ ہیضہ، گردے فیل ہونا، پولیو، جگر کے امراض اور یہاں تک کہ بچوں میں پیچش کے مہلک واقعات بھی بڑھ چکے ہیں۔

غزہ کی وزارتِ صحت کے ماہر ڈاکٹر ایمن رَملَوی کہتے ہیں کہ اسرائیلی بمباری نے “زندگی کے تمام پہلوؤں کو تباہ کر دیا ہے”۔ ان کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ شعبہ پانی اور نکاسی آب کا ہے، جو براہِ راست صحت سے جڑا ہوا ہے۔

فلسطینی واٹر اتھارٹی کے مطابق 85 فیصد سے زائد واٹر اور سیوریج سسٹم تباہ ہو چکے ہیں، جبکہ پانی کے حصول میں 70 سے 80 فیصد تک کمی آئی ہے۔ بجلی کی عدم دستیابی، ایندھن کی بندش اور ساز و سامان کی عدم رسائی نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ غزہ آج پیاس سے مرنے والا شہر بن چکا ہے۔

پانی میں آلودگی کی شرح بھی ہوشربا حد تک بڑھ گئی ہے۔ پہلے یہ شرح 4 فیصد تھی، مگر اب 25 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ نہ صرف پینے کا پانی بلکہ زراعت میں استعمال ہونے والا پانی بھی آلودہ ہو چکا ہے، جو مزید بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں 65 سے 70 فیصد واٹر نیٹ ورک تباہ ہو چکا ہے۔ پانی ٹینکروں کے ذریعے فراہم کیا جا رہا ہے، لیکن ایندھن کی قلت کی وجہ سے یہ نظام بھی ڈانواں ڈول ہے۔ ترجمان جوناتھن کریکس کہتے ہیں کہ “بچوں پر اس بحران کا سب سے زیادہ اثر پڑ رہا ہے وہ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں”۔

یونیسیف کے مطابق 90 فیصد خاندان پینے کے پانی تک رسائی سے محروم ہیں۔ یہاں تک کہ ایک نومولود کو دھونا بھی ممکن نہیں رہا۔

خان یونس کے المواصی علاقے میں گندگی، کوڑے کے ڈھیر اور آوارہ جانوروں کی بہتات کی وجہ سے جسم پر خارش اور دیگر جلدی بیماریاں عام ہو چکی ہیں۔ غزہ میں نکاسی آب کی تنصیبات بند ہونے کے بعد گندہ پانی بغیر کسی صفائی کے سیدھا سمندر میں گر رہا ہے، جس سے نہ صرف انسانی زندگی بلکہ سمندری ماحول بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔

رملوی بتاتے ہیں کہ جنگ سے قبل غزہ میں 250 سے زائد کنویں کام کر رہے تھے مگر اب صرف 118 بچے ہیں اور ان کی تعداد بھی مسلسل کم ہو رہی ہے۔ پانی کے ذخائر آلودہ ہو چکے ہیں کیونکہ پناہ گزینوں کو نکاسی کے لیے صرف جذب کرنے والے گڑھے ہی دستیاب ہیں جو زیرزمین پانی کو زہر آلود کر رہے ہیں۔

صورتحال اتنی سنگین ہے کہ عام شہری اپنی معمول کی پانی کی ضرورت بھی پورا نہیں کر سکتے نہ ایک دن کے لیے، نہ دو، اور نہ تین دن کے لیے۔

دوسری جانب2 مارچ سے قابض اسرائیل نے غزہ کے 24 لاکھ مظلوم فلسطینیوں پر قحط مسلط کر رکھا ہے۔ ہزاروں امدادی ٹرکوں کو سرحدوں پر روک کر اسرائیل نے دانستہ بھوک اور پیاس کو فلسطینیوں کے لیے ہتھیار بنا دیا ہے۔

سات اکتوبر 2023ء سے جاری اس وحشیانہ نسل کشی میں امریکہ کی مکمل پشت پناہی سے قابض اسرائیل نے ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کر دیا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ تقریباً 14 ہزار فلسطینی اب بھی لاپتہ ہیں، جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔

یہ محض ایک انسانی بحران نہیں، یہ اجتماعی سزا ہے ۔ ایک صدی کے عظیم ترین انسانی سانحات میں سے ایک خونی سانحہ ہے جو قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک غاصب اور فاشسٹ خون خوار ریاست کا پیدا کردہ ایک المناک انسانی بحران ہے۔ اس انسانی بحران میں غاصب ریاست پوری کی پوری فلسطینی قوم کا وجود مٹانا چاہتی ہے اور وہ اس کے لیے طاقت اور وحشت ودرنددگی کا ہر حربہ اور ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی استعماری طاقتیں تو فلسطینی قوم کی منظم نسل کشی میں غاصب صہیونیوں کےپشت پر کھڑی ہیں مگر عرب اور مسلمان ممالک جس مجرمانہ بے حسی، منافقت اور مغرب کی غلامی کا شکار ہیں اس نے فلسطینی قوم کے دکھوں، تکالیف، ان کے درد میں اضافہ کردیا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan