Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

فلسطینی جدو جہد کی علامت ’کوفیہ‘ غاصب صہیونیوں کے لیے خوف کا نشان کیسے بنا؟

رام اللہ   (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) فلسطینی وزارت ثقافت نے اسلامی تعاون تنظیم ’او آئی سی‘ کی عالمی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم’آئیسسکو‘ کے غیر منافع بخش ورثے کی فہرست میں فلسطینی شناخت اور مزاحمت کی علامت ’کوفیہ‘ کے اندراج کا اعلان کیا۔

وزارت نے قومی یوم کوفیہ کے موقع پر ایک بیان میں کہا کہ فلسطینی کوفیہ “ہماری قومی شناخت کی علامت بن گیا ہے۔ گویا یہ وقار اور استقامت کا تاج ہے جو سرزمین پر قائم رہنے اور فلسطینیوں کی جدوجہد کی داستان سناتا ہے۔ یہ فلسطینی عوام کی طویل جدوجہد کا حقیقی گواہ ہے اور اس کا پھیلاؤ کئی دہائیوں کے دوران آزادی کے لیے معاشرے کی یکجہتی کا ثبوت ہے‘‘۔

انہوں نے مزید کہاکہ “فلسطینی کوفیہ کو ISESCO کی غیر منافع بخش ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کرنا ایک قومی کامیابی ہے، جب ہیریٹیج مہم نے اسے شامل کرنے پر اصرار کیا، کیونکہ یہ قومی شناخت کی علامت بن گیا ہے”۔

کوفیہ اپنے سیاہ اور سفید رنگوں میں 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں جاری اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کے ساتھ پوری دنیا میں فلسطینی کاز کے ساتھ یکجہتی کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں سے یکجہتی کرنےوالے کارکن اسے کندھوں یا سر پر اسکارف کے طور پر پہنتے ہیں۔ اسے بہت سے لباس اور فنکارانہ ڈیزائنوں میں بھی شامل کیا گیا ہے۔

کوفیہ طویل عرصے سے فلسطین پر برطانوی قبضے کے بعد سے فلسطینی قومیت کی علامت رہا ہے۔ اسے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے مرحوم رہ نما یاسر عرفات نے مجسم کیا تھا،ان کی کوئی بھی تصویر شاذ و نادر ہی اس کے بغیر لی گئی تھی۔اسے اس طرح تہہ کیا گیا تھا جس سے تاریخی فلسطین کی شکل کو دکھایا گیا ہو۔

ڈیزائن کی تاریخ دان انو لنگالا نے رائٹرز کو بتایا کہ اس کپڑے کو پہلی بار سیاسی اہمیت حاصل ہوئی جب برطانوی حکومت کے خلاف 1936 اور 1939 کے درمیان فلسطین میں انقلاب شروع ہوا۔ فلسطینی جنگجوؤں نے اس سے اپنے چہرے ڈھانپنا شروع کیے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ “متحدہ مزاحمت” کی علامت بن گیا۔

بلیک اینڈ وائٹ پیٹرن 1950ء کی دہائی میں سامنے آیا جب برطانوی کمانڈر جنرل جان گلوب نے اسے عرب لشکر میں فلسطینی فوجیوں کو تفویض کیا تاکہ وہ سرخ اور سفید اردنی فوجیوں سے الگ دکھ سکیں۔

اسے بعد میں لیلیٰ خالد جیسے فلسطینی مجاھدین نے پہنا۔ لیلیٰ نے سنہ 1969ء میں ایک امریکی TWA طیارے کو ہائی جیک کیا تھا۔

سنہ 1967ء اور 1993ء کے درمیان اسرائیل کے زیر تسلط مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی پرچم لہرانے پر پابندی کے بعد کوفیہ فلسطینی ریاست کے قیام کی جدوجہد کی علامت بن گیا۔

غزہ کے خلاف نسل کشی کی جنگ کے آغاز کے بعد سے الحربوی فیکٹری کی ویب سائٹ پر کوفیہ کی آن لائن خریداری کے آرڈرزمیں اضافہ ہوا ہے، جو کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں آخری کوفیہ فیکٹری ہے۔

مخصوص فلسطینی پہچان بننے والا یہ رومال جہاں ایک طرف فلسطینی یکجہتی، اتحاد، قومیت اور مزاحمت کی علامت ہے وہیں یہ غاصب صہیونیوں کے لیے خوف کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسرائیلی ریاست مختلف حربوں اور ہتھکنڈوں سے کوفیہ کے استعمال کو روکنے کی کوششیں کرتی ہے مگر فلسطینی ’کوفیہ‘ اس وقت مشرق ومغرب میں فلسطینی پہچان بن چکا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan