غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی خون آشام سرزمین پر جاری ہولناک تباہی اور انسانی سانحے کے درمیان یورومیڈ مانیٹر برائے انسانی حقوق نے ایک بار پھر دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ادارے نے واضح کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی، اجتماعی قحط اور منظم قتل و غارت گری درحقیقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے پر عملدرآمد ہے، جس کا مقصد غزہ کو مکمل طور پر فلسطینیوں سے خالی کرانا ہے۔
یورومیڈ مانیٹر کا کہنا ہے کہ یہ مظالم کسی وقتی ردعمل یا سکیورٹی اقدام نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے، منصوبہ بند نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں، جس کا آغاز 7 اکتوبر 2023ء کو ہوا اور اب تک پوری شدت سے جاری ہے۔ قابض اسرائیل نے سال 2024ء کے آغاز سے اب تک کم از کم 35 جبری انخلاء کے احکامات جاری کیے، جن کا اثر دو ملین سے زیادہ مظلوم فلسطینیوں پر پڑا، جنہیں بار بار بے گھری کا سامنا ہے۔
ادارے نے انکشاف کیا کہ قابض اسرائیلی فوج نے جمعرات کے روز شمالی غزہ کے متعدد علاقوں بشمول غبن، الشیماء، فدعوس، المنشیہ، شیخ زاید، السلاطین، الکرامہ، مشروع بیت لاھیا، الزھور، تل الزعتر، النور، عبدالرحمن، النھضہ اور جبالیا کیمپ کے مکینوں کو فوری طور پر علاقے خالی کرنے اور جنوب کی طرف منتقل ہونے کا حکم دیا۔
چند روز قبل بھی جنوبی غزہ کے خانیونس شہر کے متعدد محلوں سے ہزاروں فلسطینیوں کو مغربی علاقے المواصی کی طرف منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا، حالانکہ یہ علاقے بھی حملوں سے محفوظ نہیں۔ ان تمام اقدامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قابض اسرائیل نے فلسطینیوں کو زمین سے نیست و نابود کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، بغیر کسی فوجی ضرورت یا سکیورٹی جواز کے، بلکہ صرف اس لیے کہ وہ فلسطینی ہیں۔
یورومیڈ مانیٹر نے متنبہ کیا کہ یہ جبری نقل مکانی اس پورے المیے کی سب سے خطرناک لہر ہے، جو نہ صرف بے گھری بلکہ بھوک، پیاس اور مسلسل بمباری کے سائے میں رونما ہو رہی ہے۔ ہزاروں خاندان اپنے گھروں یا پناہ گاہوں سے نکالے جا چکے ہیں، جنہیں ننگے پاؤں، پیاسے اور بھوکے، بغیر کسی سکیورٹی یا ٹرانسپورٹ کے، کھلے آسمان تلے چلنے پر مجبور کیا گیا۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، موت ان کا تعاقب کرتی ہے۔
قابض اسرائیل ایک طرف المواصی جیسے علاقوں کو “محفوظ” قرار دیتا ہے تو دوسری جانب انہیں خاک و خون میں نہلا دیتا ہے۔ کل صبح کی بمباری میں ایک ہی فلسطینی خاندان اشرف خریش، ان کی اہلیہ سحر محمد خریش اور ان کے دونوں بچے باسل اور احمد کو ان کی خیمہ میں شہید کر دیا گیا۔ یہ سفاکانہ حقیقت ہے کہ نام نہاد محفوظ علاقے بھی فلسطینیوں کے لیے موت کے کنویں بن چکے ہیں۔
یورومیڈ مانیٹر نے اس حقیقت کو بے نقاب کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی جبری بے دخلی، قحط کی پالیسی اور امداد کی تقسیم کا طریقہ درحقیقت ایک جامع منصوبہ ہے، جو فلسطینی قوم کو ان کے وطن سے نکالنے کے لیے نافذ کیا جا رہا ہے۔ غزہ کی 2.3 ملین آبادی، جن پر پچھلے 19 ماہ سے بدترین جنگ مسلط ہے، بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دی گئی ہے۔ ان کے گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، اور پناہ گاہوں کو مٹا کر، انہیں زندہ لاشوں میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ادارے نے واضح کیا کہ یہ نسل کشی اسرائیل کی کئی دہائیوں سے جاری نوآبادیاتی سوچ کا تسلسل ہے، جس کا ہدف فلسطینیوں کے وجود کو مٹانا اور ان کی سرزمین پر قبضہ مستحکم کرنا ہے۔ مگر اس بار منصوبہ نہایت واضح، وسیع اور خطرناک ہے۔ اس میں فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکالنے کو صرف ایک “آپشن” کے بجائے “زندہ رہنے کی واحد شرط” بنا دیا گیا ہے۔
یورومیڈ مانیٹر نے عالمی برادری سے پُرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی قانونی و اخلاقی ذمہ داریاں ادا کرے اور فوری طور پر ان مظالم کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ اسرائیل پر اقتصادی، عسکری اور سفارتی پابندیاں عائد کی جائیں، اسلحے کی ترسیل بند کی جائے اور اس کے جنگی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ادارے نے تمام حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ اسرائیلی مجرموں بہ شمول وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو اور سابق وزیر دفاع کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے جاری گرفتاری کے وارنٹس کو عملی جامہ پہنائیں۔