مقبوضہ بیت المقدس (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیلی براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے کہا ہے کہ صہیونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے گذشتہ جولائی میں اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کا موقع گنوا دیا تھا کیونکہ انہوں نے انتہا پسند اسرائیلی وزراء ایتمار بن گویر اور بزلئیل سموٹریچ کو خوش کرنے کے لیے جنگ بندی معاہدے سے گریز کیا۔
براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے مزید کہا کہ حماس گذشتہ جولائی میں مکمل جنگ بندی کی شرط سے منسلک کیے بغیر متعدد اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اس وقت حماس کی منظوری انسانی امداد سے متعلق جنگ بندی کی تجویز کے پہلے اور دوسرے مرحلے کو جوڑنے کی کوشش تھی۔
اسرائیلی براڈ کاسٹنگ کارپویشن نے مزید تفصیلات کا ذکر نہیں کیا لیکن حماس نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کواس وقت تک رہا نہیں کرے گی جب تک اسرائیل غزہ کی پٹی میں نسل کشی کو مکمل طور پر نہیں روکے گا۔
اس وقت امریکی تجویز میں تین مراحل شامل تھے۔ پہلے مرحلے میں فوری جنگ بندی، غزہ میں اسرائیلی قیدیوں میں سے خواتین، بوڑھوں اور زخمیوں کی رہائی، قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کے آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلاء شامل تھا۔
فریقین کے معاہدے کے بعد دوسرے مرحلے میں تمام باقی قیدیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیل کے انخلاء پرمتفق ہوگئے تھے تاکہ بحران کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکے۔
تیسرے مرحلے میں جنگ بندی اور تعمیر نو کا طویل مدتی منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔
براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے وضاحت کی کہ نیتن یاہو نے غزہ کی پٹی سے دستبرداری سے انکار کر دیا اور پٹی میں فلاڈیلفیا (جنوبی) اور نیٹزارم (مرکزی) محوروں کو جنگ بندی کے عمل میں رکاوٹ بنا دیا۔ رپورٹ میں اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہےکہ نیتن یاہو نے بن گویر اور سموٹریچ کو خوش رکھنے کے لیے جنگ بندی معاہدے سے فرار اختیار کیا۔