Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

بلیئر پروجیکٹ: عالمی اوباشوں کا غزہ میں نیا نو آبادی منصوبہ

غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) جب قابض اسرائیل غزہ پر ہمہ گیر نسل کشی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اور شہداء کی تعداد بڑھ کر 65 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، ایک لاکھ 68 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہیں اور ہزاروں لاپتہ ہیں، ایسے میں پسِ پردہ ایک اور خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد غزہ پر کس کا قبضہ ہوگا؟۔

انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں ملوث سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیر کا تجویز کردہ منصوبہ ’’غزہ کے لیے بین الاقوامی عبوری اتھارٹی‘‘ (GITA) محض تعمیرِ نو کا خاکہ نہیں بلکہ ایک مکمل سیاسی سازشی حربہ ہے، جو عالمی قانونی پردے میں چھپی غیرملکی سازش مسلط کرتا ہے۔ دستاویزات اور بجٹ کے خدوخال کھل کر بتا رہے ہیں کہ یہ منصوبہ عالمی اوباشوں کی فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کو کچلنے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔

منصوبے کی جھلکیاں

بلیر کی تجویز کے مطابق غزہ کو پانچ برس کے لیے اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں ایک بین الاقوامی کونسل چلائے گی، جس میں سات سے دس اراکین ہوں گے اور فلسطینی نمائندگی محض علامتی ہوگی۔ اس کونسل کو غزہ کے لیے ’’اعلیٰ سیاسی و قانونی اختیار‘‘ حاصل ہوگا، جو قوانین وضع کرے گی اور تمام حکومتی اداروں پر نگران ہوگی۔

انتظامی سطح پر وزارتوں کو ٹیکنوکریٹس کے سپرد کیا جائے گا، جنہیں یہی عالمی اتھارٹی نامزد اور کنٹرول کرے گی۔ اس طرح یہ تمام وزرا اس نام نہاد اتھارٹی کے لیے کٹھ پتلی ہوں گے۔

سکیورٹی کے نام پر غزہ میں کثیر القومی افواج تعینات کی جائیں گی جو سرحدوں اور گذرگاہوں کی نگرانی کریں گی، جبکہ مقامی پولیس کو ’’غیر مسلح‘‘ کر دیا جائے گا۔

معاشی طور پر ’’جیپیڈا‘‘ (GIPEDA) کے نام سے ایک سرمایہ کاری و ترقیاتی ادارہ بنایا جائے گا، جو غیرملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کر کے تعمیرِ نو کو منافع بخش کاروبار میں بدل دے گا۔

بجٹ کی ترجیحات: امن نہیں، کنٹرول مسلط کرنا ہے

بجٹ سے واضح ہے کہ تعمیرِ نو ثانوی ہے اور اصل ترجیح نام نہاد سکیورٹی ہے۔ پولیس اور نگرانی کے اداروں کے لیے بھاری رقوم مختص کی گئی ہیں، جبکہ تعمیرِ نو کے بڑے منصوبے بیرونی عطیات کے وعدوں پر ڈال دیے گئے ہیں۔ قاہرہ، العریش یا عمان میں دفاتر قائم کرنے کی شق اس امر کا اعلان ہے کہ غزہ کی حکمرانی عملاً باہر سے ہوگی۔

سیاسی و معاشی اثرات

یہ منصوبہ دراصل ایک نیا نوآبادیاتی جال ہے جو فلسطینیوں کو اپنے ہی وطن میں بے اختیار کر دے گا۔ غیرمسلح مقامی پولیس اور غیرملکی افواج فلسطینی عوام اور ان کی مزاحمت کو کمزور کرنے کا ذریعہ بنیں گی، جبکہ غیرملکی سرمایہ کاری کی شکل میں غزہ کو عالمی کمپنیوں کی جاگیر بنا دیا جائے گا۔

سب سے خطرناک پہلو ’’جائیداد کے تحفظ‘‘ کے نام پر املاک کا اندراج ہے، جس کے ذریعے لاکھوں فلسطینیوں کی واپسی تقریباً ناممکن بنائی جا سکتی ہے اور غزہ کی آبادیاتی ساخت بدلنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

عالمی اور صہیونی ردعمل

برطانوی صحافی ڈیوڈ ہرسٹ نے بلیر کی اس سازش کو فلسطین کے خلاف نیا وار قرار دیا اور کہا کہ بلیر ان درندوں کی صف میں شامل ہو گیا ہے جو فلسطینی نسل کشی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ برطانوی صحافی ایش سارکار نے طنزیہ کہا کہ ’’جب شیطان نہ ملا تو بلیر کو بلالیا گیا‘‘۔

امریکی حلقوں میں یہ منصوبہ جیرڈ کشنر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے، جبکہ قابض اسرائیل اسے اپنے مفادات کے تحفظ کا ذریعہ سمجھ رہا ہے۔ وزیر خزانہ بزلئیل سموٹریچ نے غزہ کو ’’رئیل اسٹیٹ خزانہ‘‘ کہا ہے۔ بنجمن نیتن یاھو مسلسل بلیر سے رابطے میں ہے مگر سرِعام منصوبے پر لب کشائی سے گریز کر رہا ہے۔

فلسطینی وزارتِ خارجہ کے نائب وزیر عمر عوض اللہ نے کہا کہ غزہ فلسطین کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہے، اسے کسی تجارتی منصوبے کے طور پر عالمی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ حماس نے بلیر کو نااہل اور ناقابلِ قبول قرار دیا اور کہا کہ وہ جنگی جرائم پر عالمی عدالت میں پیش کیے جانے کے قابل ہیں۔ ترکیہ کے وزیرِخارجہ حاقان فیدان نے بھی بلیر پلان کی موجودگی کی تردید کی اور واضح کیا کہ غزہ صرف فلسطینی عوام کے ہاتھ میں رہے گا۔

اصل خطرہ اور متبادل

اگر یہ منصوبہ مسلط ہوا تو غزہ کو ایک بیرونی کنٹرول شدہ علاقے میں بدل دیا جائے گا، جہاں فلسطینی صرف محدود سطح پر خدماتی انتظام تک محدود رہیں گے اور تعمیرِ نو کو سیاسی بلیک میلنگ کا ہتھیار بنایا جائے گا۔

اس کے برعکس اصل راستہ واضح ہے۔ فوری طور پر جارحیت ختم کی جائے، محاصرہ توڑا جائے اور قابض اسرائیل غزہ، غرب اردن اور القدس سے مکمل انخلا کرے۔ پھر ایک حقیقی فلسطینی انتظامیہ قائم ہو جو داخلی اتفاق رائے اور عوامی شمولیت سے ابھرے اور تعمیرِ نو فلسطینی اداروں کی قیادت میں غیر مشروط عالمی حمایت کے ذریعے ہو۔

سوال یہ ہے کہ ٹونی بلیر کو کس نے حق دیا کہ وہ غزہ پر حکمرانی کا خواب دیکھے؟ کیا یہ فلسطینی عوام کی مزید توہین نہیں کہ ان کے حقِ خودارادیت کو پھر نظرانداز کر کے غاصب اسرائیل کی درندگی کو تحفظ فراہم کیا جائے؟

یہ منصوبہ دراصل قابض اسرائیل کے جنگی جرائم کو چھپانے اور فلسطینی نسل کشی کو قانونی جواز دینے کی کوشش ہے۔ لیکن فلسطینی عوام کا عزم اور ان کی مزاحمت ہی وہ قوت ہے جو ایسے تمام سازشی منصوبوں کو ناکام بنائے گی۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan