غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی بارہ سالہ ننھی رهف عیاد آج بھوک، کمزوری اور بیماری کی مجسم تصویر بن چکی ہے۔ کبھی موسمی کپڑوں میں کھیلتی، ہنستی اور خواب بنتی رهف اب محض ایک کمزور ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی ہے، جس کا جسم قابض اسرائیلی فاشسٹ کے ننگ آدمیت محاصرے اور بھوک نے گلانا شروع کر دیا ہے۔
رهف کہتی ہے “میرا نام رهف اور عمر بارہ سال ہے۔ پہلے میں خوبصورت کپڑے پہن کر اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلتی تھی۔ ہم ہنستے، تصویریں بناتے، خواب دیکھتے۔ مگر جنگ نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا۔ یہاں تک کہ کھانا بھی۔ میں ہر وقت بھوکی ہوتی ہوں، پیٹ میں درد رہتا ہے، ذرا سی حرکت سے تھک جاتی ہوں۔ مجھے بس وہی پرانا وقت واپس چاہیے،کھانا، ہنسی، دوڑنا، اسکول جانا، میں صرف ایک عام بچی کی زندگی چاہتی ہوں”۔
رهف کی یہ سادہ باتیں درحقیقت غزہ کے محصور بچپن کا نوحہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس کی دو تصویریں وائرل ہو چکی ہیں۔ ایک میں وہ کھِلکھِلاتی بچی ہے، رنگین لباس زیب تن کیے، معصوم مسکراہٹ لیے اور دوسری تصویر ایک نحیف ونزارجسم اور غمزدہ آنکھوں والی کمزور اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی ہے جسے جنگ نے برباد کر دیا ہے۔ ان دونوں تصویروں میں فرق صرف وقت کا نہیں بلکہ جنگ کا ہے۔
رهف اس وقت شدید غذائی قلت میں مبتلا ہے۔ یہ مسئلہ اکیلا اس کا نہیں۔ اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کی رپورٹس کے مطابق غزہ میں دس لاکھ سے زائد بچے اسی حال سے دوچار ہیں۔ انہیں خوراک میسر ہے، نہ دوا، تعلیم، نہ علاج۔
رهف کی والدہ نے افسردہ لہجے میں بتایا
“میری بیٹی پہلے ہنستی آئینے کے سامنے ناچتی اور گانے گاتی تھی۔ اب وہ صرف لیٹی رہتی ہے، بات بھی نہیں کر سکتی، اس میں ہمت ہی نہیں۔ بس دعا کرتی ہوں کہ میری رهف دوبارہ ویسی ہو جائے جیسے پہلے تھی”۔
رهف کی بس ایک خواہش ہے کہ ” بس کچھ کھانے کو مل جائے تاکہ میں پھر سے جی سکوں۔”
سترہ سامل سے جاری محاصرہ اور جنگ نے غزہ کی بنیادی ڈھانچے کو مٹی میں ملا دیا ہے۔ ہسپتالوں میں دوائیں ختم ہو چکی ہیں۔ خوراک کے ذخائر خالی ہو چکے ہیں، غربت کی شرح اسی فیصد سے تجاوز کر چکی ہے اور ہزاروں بچے درمیانے سے شدید غذائی قلت میں مبتلا ہیں۔ دوسری طرف انہیں فوری طور پر کسی قسم کی طبی امداد کی فراہمی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
رهف صرف ایک بچی نہیں بلکہ اس پوری تباہ حال نسل کی نمائندہ ہے، جو روز خاموشی سے ختم کی جا رہی ہے۔ غزہ کے ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ رهف کی حالت تیزی سے بگڑ سکتی ہے، لیکن ان کے پاس دوائیں ہیں، نہ آلات اور نہ ہی عالمی برادری کی مدد۔
اس المناک صورتحال میں سوال اب بھی وہی ہےکہ آخر کب تک بچے اس جنگ کا ایندھن بنتے رہیں گے جس سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں؟
رهف کی دنیا سے بس ایک ہی پیغام ہے “مدد کرو تاکہ میں جی سکوں۔ ابھی میرا مرنے کا وقت نہیں”۔
رهف عیاد کی کہانی محض ایک خبر نہیں بلکہ ایک ایسا الارم ہے جو دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ وقت آ گیا ہے کہ آوازیں اٹھیں، ضمیر جاگیں اور قابض اسرائیل کا محاصرہ ختم ہو تاکہ غزہ کے بچوں کا بچپن بچایا جا سکے۔