مسئلہ فلسطین کے تناظر میں خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال اور خاص طور پر مزاحمت پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا جائزہ لینے کے لئے یہ تحریر رقم کی جا رہی ہے، تاکہ قارئین محترم کو انداز ہ ہوسکے کہ خطے میں مزاحمت پر کیا اثرات رونما ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر حالیہ دنوں غزہ کے لئے آنے والا فریڈم فلوٹیلا کہ جسے غاصب صیہونی گینگ نے اپنے قبضہ میں لے لیا ہے اور غزہ کے لوگوں تک مدد نہیں پہنچانے دی گئی ہے۔ یقینی طور پر غزہ کے لئے آنے والا یہ فریڈم فلوٹیلا بھی مزاحمت کے اثرات میں سے ایک ہے۔ فلسطین کی بات کریں تو ہم جانتے ہیں کہ ایک طرف غزہ سے لاکھوں لوگوں کی جبری نقل مکانی کے امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبہ پر عملدرآمد کی ہر ممکنہ کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ غزہ کو خالی کیا جائے، لیکن اس منصوبہ کے مقابلہ میں غزہ کے عوام سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ڈٹ گئے ہیں۔ انہون نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ چاہے کچھ بھی قربانی دینا پڑے، دیں گے، لیکن غزہ سے نہیں نکلیں گے۔البتہ ان دنوں غاصب صیہونی گینگ مسلسل ظلم اور تشدد میں اضافہ کر رہی ہے اور غزہ کے شہریوں کو مختلف علاقوں سے دھکیل کر دیوار سے لگانے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔ اس تمام تر شیطانی منصوبہ کے سامنے گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران فلسطین کی اسلامی مزاحمت حماس اور جہاد اسلامی کے جوانوں کی کارروائیوں میں آٹھ صیہونی فوجی واصل جہنم ہونے کی مصدقہ اطلاعات بھی پہنچ رہی ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ ہلاک ہونے والے صیہونی گینگ کے دہشت گردوں کی تعداد زیادہ ہو۔ غاصب صیہونی گینگ کی حکومت کہ جس نے اپنے صیہونی آباد کاروں کو یہ بتا رکھا ہے کہ حماس اور حزب اللہ کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، ایک مرتبہ پھر حماس کی ان کارروائیوں کے بعد صیہونی آبادکاروں کے سامنے حقیقت کو چھپانے میں ناکام ہو رہی ہے۔
حالانکہ عید الاضحیٰ سے ایک روز قبل لبنان کے دارالحکومت بیروت کے مضافاتی علاقہ ضاحیہ میں اسرائیلی غاصب گینگ نے بڑے پیمانہ پر بمباری کی، جس کے بعد خود صیہونی آباد کاروں نے سوال اٹھا دیا ہے کہ حکومتی دعووں کے مطابق حزب اللہ ختم ہوچکی ہے تو پھر اب بیروت کے شہری علاقوں پر بمباری کیوں کی جا رہی ہے۔؟ اس سوال نے خود غاصب صیہونی گینگ کے دعووں کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ گذشتہ دنوں بیروت کے علاقہ ضاحیہ میں غاصب اسرائیلی گینگ نے فضائی حملہ کیا اور متعدد مقامات پر بمباری کی گئی۔ یہ حملہ عید الاضحٰی سے ایک روز قبل کیا گیا تھا۔ غاصب صیہونی گینگ کے مطابق بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں پر وسیع فضائی حملے، ڈرون مینوفیکچرنگ سینٹر سمیت 13 اہداف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ لبنانی فوج نے ان کارروائیوں کو “قومی خود مختاری کی صریح خلاف ورزی” قرار دیا اور جنگ بندی کی نگرانی کمیٹی سے تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دی۔
لبنان کے صدر جوزف عون اور نائب صدر سلام نے حملوں کی مذمت کی اور عالمی برادری سے کارروائی کا مطالبہ کیا۔ سلام نے زور دے کر کہا کہ ان حملوں کا مقصد “عید الاضحیٰ کے موقع پر جان بوجھ کر لبنان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔” دوسری جانب بلدیاتی انتخابات میں حزب اللہ کی فتح نے غاصب صیہونی گینگ کے دعووں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے کہ جس میں اسرائیل نے اپنے آبادکاروں کو بتایا تھا کہ حزب اللہ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ صیہونیوں کے ان تمام دعووں کے باوجود، حزب اللہ نے تمام علاقوں میں قابل ذکر فتوحات حاصل کی ہیں۔ گذشتہ دنوں یمن کے ساتھ امریکہ نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اس اعلان میں امریکی صدر نے کہا کہ امریکی جنگی بیڑہ کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ حالانکہ اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے صرف چند دنوں میں دو ارب ڈالرز کا گولہ بارود یمن پر بمباری کی اور سیکڑوں بے گناہوں کو شہید کیا۔
یمن پر امریکی جارحیت کے جواب میں یمن کی انصاراللہ نے براہ راست امریکی فوجی جنگی بحری بیڑہ کو کامیابی سے نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجہ میں امریکی صدر ٹرمپ نے یک طرفہ اعلان کیا کہ جنگ بند کی جا رہی ہے، تاہم انصاراللہ امریکی جنگی بیڑہ کو ہدف قرار نہ دے۔ اس غیر تحریری جنگ بندی میں انصاراللہ نے واضح کیا تھا کہ اسرائیل کے خلاف کاروائیاں جاری رہیں گی۔ تاہم انصاراللہ نے تاکید کی تھی کہ “غزہ کی حمایت جاری رہے گی۔” یمن کی انصاراللہ کے خلاف امریکی فوجی کارروائیاں انصاراللہ کی میزائل صلاحیتوں کو کمزور کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ حالیہ دنوں مسلسل غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے بن گوریون ہوائی اڈے پر یمنی حملے پروازوں میں خلل اور اسرائیل کی تنہائی کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ یقینی طور پر امریکی اجارہ داری اور غاصب صیہونی گینگ کی بدترین شکست ہے۔
شام کی صورتحال پر بات کریں تو شام میں ایک نئی مزاحمت کی تنظیم نے جنم لیا ہے، جس کا نام حماس کے شہید کمانڈر شہید محمد ضیف کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ شام میں غاصب صیہونی فوجی گینگ کی موجودگی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ غاصب صیہونی فوج کی جانب سے شام کے جنوبی علاقوں پر بمباری کی جا رہی ہے اور شام میں جولانی حکومت اسرائیل کے خلاف خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ دوسری طرف سعودی وزیر خارجہ دمشق کا دورہ کر رہے ہیں، تاکہ شام میں ترک اثر و نفوذ کو کم سے کم کیا جائے۔ یعنی شام کو ایک اکھاڑہ بنا دیا گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ظالم آپس میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس میدان میں کس کو کیا حاصل ہوگا۔
عراق کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو عراق اس وقت امریکی اور مغربی حکومتوں کے دباو کو شدت سے مسترد کرچکا ہے۔ تاہم امریکی حکومت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کردستان میں تنازعات کو جنم دینے کی منصوبہ بندی کی ہے اور تیل و گیس کے ذخائر پر امریکی کمپنیوں کو سودے کرنے کے لئے لایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف عراق کی حزب اللہ نے باقاعدہ طور پر سیاسی میدان میں قدم رکھ دیا ہے اور آئندہ انتخابات کے لئے عدنان الزرفی کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مزاحمت کا محور تیزی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہے اور مختلف محاذوں پر مختلف حکمت عملی کے ذریعے دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنانے میں کارآمد ہے۔ امریکی حکومت کی کوشش ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرے اور شام کی حکومت کو لبنان پر برتری حاصل ہو، لیکن یہ ایک ایسا خواب ہے، جو کبھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔
کیونکہ لبنان پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کے جواب میں حزب اللہ کی حکمت عملی ایک مرتبہ پھر غاصب صیہونی گینگ کو مایوس کر رہی ہے اور حزب اللہ اپنی میزائل طاقت کو مستحکم کر رہی ہے۔ البتہ حزب اللہ کو غاصب صیہونی گینگ کی جانب سے دہشتگردانہ کارروائیوں کا خطرہ ہے۔ یمن اور عراق میں بھی مزاحمت کی بہترین کارکردگی نے امریکہ اور مغربی حکومتوں کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مزاحمت اپنا راستہ اور سفر تیزی کے ساتھ طے کرتی ہوئے منزل کی جانب گامزن ہے اور مغربی حکومتوں کے مزاحمت سے متعلق دعووں کی قلعی درج بالا سطور میں بیان کئے گئے چند ایک اہم واقعات اور حالات سے اندازے لگائے جا سکتے ہیں کہ مزاحمت فلسطین، لبنان، شام و یمن اور عراق میں پائیداری کے ساتھ موجود اور زندہ ہے۔