Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

مسلسل تئیس ماہ کی جارحیت ،غزہ کے بہادر اور ثابت قدم عوام نے صہیونی منصوبہ آشکار کردیا

غزہ ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیل کی 23 ماہ طویل اجتماعی نسل کشی کی جنگ میں غزہ کی مزاحمتی قوتوں کا صبر و استقلال محض ایک عسکری استثناء نہیں بلکہ ایک ایسا تاریخی نمونہ بن گیا ہے جو صہیونی نظریے کی جڑوں میں پیوست بحران کو عیاں کرتا ہے۔ یہ استقامت نہ صرف سیاسی اور عسکری ماہرین کو حیران کرتی ہے بلکہ اس جھوٹے جواز کو بھی کھول کر رکھ دیتا ہے جس پر قابض اسرائیل ہمیشہ فخر کرتا آیا تھا۔

ممتاز محقق اور مرکز الزیتونہ برائے مطالعات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محسن صالح کے مطابق غزہ کی مزاحمت کا تسلسل اور اس کی بھرپور کارکردگی صہیونی نوآبادیاتی فکر کے دل پر کاری ضرب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ استقامت صہیونی ریاست کے اندر ایک ایسا عقدہ پیدا کر چکی ہے جس کی جڑ اس کے شکست کے خوف اور اس حقیقت سے وابستہ ہے کہ اس کی عمارت انسانیت کے انکار اور مظلوم کی تعریف پر اجارہ داری کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔

تصویر کے الٹ جانے کا خوف

قابض اسرائیل کی اس درندگی کا نتیجہ ہے کہ گذشتہ 23 ماہ میں دو لاکھ انتیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر صالح مرکزاطلاعات فلسطین میں شائع اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ دنیا اب ایک ایسی صہیونیت کو دیکھ رہی ہے جس کے اندر انسانیت نہیں اور ایک ایسے فلسطینی کو دیکھ رہی ہے جو اپنی شناخت اور مہذب رویے کے ساتھ فتح یاب ہے۔ یہی وہ الٹتی ہوئی تصویر ہے جو قابض اسرائیل کے لیے دہشت اور وحشت کا سبب ہے۔

صہیونی طاقت کے گھمنڈ نے نہ صرف اس کی وحشت اور جھوٹی قدروں کو ننگا کیا ہے بلکہ اس کے رونے دھونے اور مظلومیت کے مصنوعی دعوؤں کو بھی بے معنی بنا دیا ہے۔ اس کے برعکس، محسن صالح کے مطابق یہ ثابت قدمی امت مسلمہ کے سب سے اعلیٰ اور عظیم اوصاف کو دنیا کے سامنے لے آیا ہے۔ اس نے اس امت کی تہذیبی رفعت، تاریخی ورثے اور عرب مسلمان کی اس اصالت کو اجاگر کیا ہے جو صدیوں سے اپنی زمین سے جڑا ہوا ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ فلسطینی نہ کوئی “انسان نما جانور” ہے نہ “محض ایک شے” یا “حیاتیاتی مادہ” جس سے اس کی انسانیت چھین کر اسے قتل کرنا اور مٹانا جائز قرار دیا جا سکے۔

ڈاکٹر صالح کے مطابق صہیونی منصوبہ دوسرے نوآبادیاتی استبداد کی طرح ایک نسلی برتری کی ذہنیت پر مبنی ہے۔ یہ منصوبہ اپنی عسکری طاقت کو ہر ظلم کا جواز سمجھتا ہے، فلسطینی شہری کی انسانیت چھین کر قتل اور بے دخلی کو جائز ٹھہراتا ہے اور سمجھتا ہے کہ طاقت ہی حق پیدا کرتی ہے اور جو کمزور ہے وہ محکوم بننے کا مستحق ہے۔

روحانی اور سیاسی استنزاف

جامعہ اریئیل کے پروفیسر ایلان پاپے کے نزدیک سات اکتوبر کے بعد مزاحمت کا صمود قابض اسرائیل کے سکیورٹی نظریے کے لیے ایک فکری امتحان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی اور نفسیاتی استنزاف نے اس تصوراتی مقام کو ہلا دیا ہے جس پر قابض ریاست اپنی ناقابل شکست طاقت کا دعویٰ کرتی آئی تھی۔

فلسطینی سیاسی تجزیہ کار احمد الحیلہ اپنے تبصرے میں کہتے ہیں کہ قابض اسرائیل یہ سمجھنے میں ناکام رہا ہے کہ حماس محض ایک مزاحمتی تحریک نہیں بلکہ فلسطینی معاشرے کا حصہ ہے جس کا ایک شہری اور تنظیمی ڈھانچہ ہے اور جو دیگر مزاحمتی دھڑوں کے ساتھ مل کر زمین پر اس وحشیانہ جنگ کا جواب دے رہی ہے۔

اہل غزہ حماس اور مزاحمت کے ساتھ اس لیے کھڑے ہیں کہ قابض اسرائیل نے جب غزہ پر جنگ مسلط کی تو وہ صرف حماس کو نہیں بلکہ بچوں، خواتین اور بزرگوں کو بھی نشانہ بنا رہا تھا تاکہ فلسطینی وجود کو ہی مٹا دیا جائے۔

اسرائیلی امور کے ماہر ڈاکٹر مہند مصطفی کے مطابق قابض اسرائیل نے حماس کی قوت کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا مگر ناکام رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ جو چیز قابض کو سب سے زیادہ بے چین کرتی ہے وہ یہ ہے کہ حماس ان علاقوں میں جہاں قابض فوج پیچھے ہٹتی ہے، اپنی قوت کو دوبارہ کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

سیاسی اور فکری معرکہ

ماہرین کے مطابق یہ صمود عالمی اور فکری منظرنامہ از سر نو ترتیب دے رہا ہے۔ وہ فلسطینی جو ہمیشہ ایک مسلسل مظلوم کی صورت میں دیکھا جاتا تھا آج اپنی جرات اور ثابت قدمی سے دنیا بھر کی تحسین کا مرکز بن گیا ہے۔

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیل کی طاقت کے بے دریغ استعمال کو اب دنیا میں آزادی پسند ضمیر اجتماعی قتل عام اور درندگی سے تعبیر کر رہے ہیں۔

غزہ میں جاری اس نسل کشی کی قیمت بے شک بہت بھاری ہے لیکن قابض ریاست مزاحمت کو جھکانے میں ناکام رہی ہے۔ اس ناکامی کا اعتراف کئی اسرائیلی حکام بھی کرتے ہیں اگرچہ اسرائیلی پالیسی اب بھی انکار، ضد اور حقیقت سے فرار پر مبنی ہے جو اس جنگ کو طول دے سکتی ہے کیونکہ وہ اسے صفر جمع صفر کی جنگ سمجھتی ہے۔ اس سب سے واضح ہے کہ یہ صرف ایک عسکری معرکہ نہیں بلکہ اقدار اور شناخت کی جنگ ہے۔

بہت سے ماہرین متفق ہیں کہ قابض اسرائیل کی جنگی مشین اور ظلم و جبر کے سامنے مزاحمت کی کامیابی محض ایک عسکری یا حکمتِ عملی کی کامیابی نہیں بلکہ صہیونی فکری ڈھانچے کی شکست ہے۔ دنیا آج میدان کی حقیقتوں کے ساتھ ساتھ ارادے کی قوت کو دیکھ رہی ہے کہ اصل میں کون ہے جو ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے اور کون ہے جو سچائی کو تسلیم کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan