واشنگٹن (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) امریکہ کی ریاست لوئیزیانا کے جج جیمی کومانس نے جاری کردہ ایک فیصلے میں فلسطین کے حامی سرگرم کارکن محمود خلیل کو امریکہ سے ملک بدر کر کے الجزائر یا متبادل کے طور پر شام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
جج نے اپنے فیصلے میں دعویٰ کیا کہ کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں فلسطینی کاز کے حق میں احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے والے محمود خلیل نے مستقل اقامت کے لیے درخواست جمع کراتے وقت مبینہ طور پر اہم معلومات چھپائی تھیں۔
بارہ ستمبر سنہ2025ء کو جاری کردہ فیصلے میں امیگریشن مقدمات کے ماہر اس جج نے کہا کہ یہ محض کسی غیر ماہر یا غیر تعلیم یافتہ فرد کی بھول نہیں تھی بلکہ عدالت کے نزدیک مدعا علیہ نے دانستہ طور پر ایک یا ایک سے زیادہ بنیادی حقائق کو مسخ کیا۔
محمود خلیل نے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حیران کن نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ مجھے آزادی اظہار کی پاداش میں انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ بیان امریکی سول لبرٹیز یونین کے ذریعے جاری کیا گیا۔
خلیل کے وکلاء نے اعلان کیا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک علیحدہ وفاقی ضلعی عدالت نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ مقدمہ زیر سماعت رہنے تک محمود خلیل کو نہ ملک بدر کیا جائے اور نہ ہی قید میں رکھا جائے۔ یہ حکم بدستور نافذ ہے۔
محمود خلیل امریکہ میں قانونی طور پر مستقل رہائش رکھتے ہیں۔ وہ ایک امریکی شہری خاتون کے شوہر اور امریکہ میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے والد ہیں۔ اس کے باوجود امریکی امیگریشن حکام نے مارچ سنہ2025ء سے انہیں تین ماہ تک قید میں رکھا اور اب وہ جبری ملک بدری کے خطرے سے دوچار ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اپنے فیصلے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ خلیل کی امریکہ میں موجودگی امریکی خارجہ پالیسی پر “سنگین ممکنہ اثرات” ڈال سکتی ہے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ٹرمپ نے گذشتہ مہینوں میں بڑی امریکی جامعات کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے۔ اس دوران انہوں نے کولمبیا اور ہارورڈ سمیت کئی جامعات کو غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دینے پر نشانہ بنایا۔ ان اداروں کے وفاقی فنڈز کم کیے گئے اور انہیں تسلیم شدہ حیثیت ختم کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔