غرب اردن (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) فلسطینی محکمہ امور اسیران و محررین اور کلب برائے اسیران نے انکشاف کیا ہے کہ محمود حسن محمد الوردیان جن کا تعلق بیت لحم سے ہے کو قابض اسرائیل کی جیلوں میں تفتیشی زندانوں کے اندر قتل کی وحشیانہ کوشش کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد ازاں چند روز قبل اسے نہایت خراب صحت کی حالت میں رہا کر دیا گیا۔
بیان کے مطابق الوردیان کو قابض اسرائیلی افواج نے 18 اگست کو اس کے والد اور متعدد شہریوں کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ یہ گرفتاری مہم بیت لحم میں روزانہ کی بنیاد پر جاری وسیع کریک ڈاؤن کا حصہ تھی جس نے پوری مغربی کنارے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
امور اسیران اور کلب برائے اسیران کے مطابق محمود الوردیان کو گرفتاری کے فوراً بعد تفتیشی مرکز “عوفر” منتقل کر دیا گیا۔ قانونی کارروائی کے دوران قابض انٹیلی جنس نے اس پر وکیل سے ملاقات پر مکمل پابندی لگا دی اور اس کی حراست کا حکم بار بار بڑھایا جاتا رہا تاکہ تفتیش کو طول دیا جا سکے۔
25 اگست 2025ء کو قابض اسرائیل نے محمود الوردیان کو “عوفر” جیل سے منتقل کر کے مقبوضہ بیت المقدس کے ہسپتال “ہداسا” پہنچایا جہاں وہ بے ہوش حالت میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا گیا۔ حالانکہ گرفتاری سے قبل وہ بالکل صحت مند تھا اور کسی بیماری کا شکار نہ تھا۔
11 ستمبر 2025 کو اچانک اس کی رہائی کا حکم جاری کیا گیا کیونکہ اس کی صحت موت و زندگی کی کشمکش میں تھی۔ رہائی کے فوراً بعد اسے بیت لحم کے عرب سوسائٹی ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کیا گیا جہاں وہ اب بھی نازک حالت میں زیر علاج ہے۔ ہسپتال کی میڈیکل رپورٹوں کے مطابق الوردیان دماغی نقصان کا شکار ہو چکا ہے جو شدید آکسیجن کی کمی کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کی پسلیوں میں دو طرفہ فریکچر، گردن کے گرد نیل کے نشانات، کلائیوں اور بائیں ہاتھ پر زخم اور کٹ، دائیں گھٹنے، بائیں ٹانگ کے نچلے حصے اور دائیں کان پر چوٹ کے نشانات پائے گئے ہیں۔
تمام شواہد اور دستاویزات سے واضح ہے کہ محمود الوردیان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ایک ہمہ جہت جرم ہے جو گرفتاری کے لمحے سے شروع ہوا۔ اسے تفتیشی مراکز میں منتقل کرنا، وکیل سے ملاقات پر پابندی، بار بار حراست میں توسیع اور پھر جسمانی و نفسیاتی اذیت کے بعد اسے قتل کی کوشش کا نشانہ بنانا قابض اسرائیل کی مجرمانہ پالیسیوں کا تسلسل ہے۔
محکمہ برائے امور اسیران اور کلب برائے اسیران نے کہا کہ محمود الوردیان کو گذشتہ برسوں میں بار بار گرفتار کیا جاتا رہا ہے جن میں اکثر گرفتاریاں بغیر مقدمے کے انتظامی حراست کے تحت کی گئیں۔ حالیہ گرفتاری بھی انہی مجرمانہ پالیسیوں کا تسلسل تھی۔ دونوں اداروں نے قابض اسرائیل کو الوردیان پر ڈھائے گئے اس ہولناک جرم کا مکمل ذمہ دار ٹھہرایا ہے جو ان جرائم کی ایک اور کڑی ہے جنہیں قابض اسرائیل دہائیوں سے جاری رکھے ہوئے ہے اور جنہوں نے غزہ پر مسلط اجتماعی نسل کشی کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچا دیا ہے۔