اسٹاک ہوم (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) جمعہ کے دن سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کی سڑکیں ایک غیر معمولی منظر کی گواہ بن گئیں، جب غزہ کے نہتے مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک خاموش مگر دل دہلا دینے والی ریلی نکالی گئی۔
شرکاء نے سیاہ لباس زیب تن کر رکھا تھا، جیسے ہر ایک نے فلسطینی شہداء کے غم میں خود کو کفن پہنایا ہو۔ ان کے ہاتھوں میں بلند ہوتے فلسطینی پرچموں کے سائے میں درد کی کہانی لکھی جا رہی تھی۔ خواتین نے ننھے بچوں کے کفن اٹھا رکھے تھے، جنہیں دیکھ کر آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ کفن جو کسی معصوم کے لمس کے بغیر بھی خون میں ڈوب چکے تھے —غزہ میں جاری صہیونی درندگی کی زندہ گواہی۔
مظاہرین میں موجود افراد نے ڈاکٹروں اور طبی عملے کا روپ دھارا، ان کے ہاتھوں میں وہ کتبے تھے جن پر تحریر تھا: “غزہ میں ڈاکٹرز اور ہسپتالوں پر بمباری انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے”۔ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے یہ علامتی احتجاج کیا جا رہا تھا کہ جہاں مریض اور معالج دونوں بموں کا نشانہ ہوں، وہاں انسانیت دفن ہو جاتی ہے۔
کچھ مظاہرین خالی برتن اٹھائے چل رہے تھے۔ یہ منظر جنگ زدہ غزہ میں جاری قحط، بھوک، اور دردناک انسانی بحران کا آئینہ تھا۔ ان کے قدم احتجاج کی چاپ بن چکے تھے جن کا ہر زینہ غزہ کے محصور بچوں کی چیخوں کی گونج تھا۔
شہر کے باشندے سڑکوں کے کنارے اور عمارتوں کی کھڑکیوں سے یہ مناظر دیکھ کر آنسو ضبط نہ کر سکے۔ کچھ کی آنکھیں چھلک پڑیں اور کچھ نے اپنے دل کی دھڑکنوں کے ساتھ مظاہرین کے ساتھ خاموش یکجہتی کا اظہار کیا۔
ریلی کے آگے آگے نوجوانوں کا ایک گروہ تھا جو غصے، دکھ اور بے بسی کو طبلوں کی تھاپ میں ڈھول بجا رہا تھا ۔ ہر ضرب ایک سوال بن کر گونجتی: “کیا دنیا اب بھی سوئی رہے گی؟”
ریلی کے اختتام پر مظاہرین نے بچوں کے کفن زمین پر رکھ دیے، ان کے گرد پھول رکھے اور مکمل خاموشی اختیار کی۔ یہ خاموشی چیخ تھی، التجا تھی، درد کی وہ صدا تھی جو کسی گرجدار نعرے سے زیادہ اثر رکھتی تھی۔
یورپی انسانی حقوق کے ادارے “یورومیڈیٹرینیئن آبزرویٹری” کے سربراہ نے اس موقع پر کہا کہ “دنیا کے ضمیر میں جاگنے کی ایک رمق ضرور محسوس ہو رہی ہے۔ یہ دیر سے سہی، مگر شاید یہی وہ روشنی ہے جس کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے”۔
قابض اسرائیلی فوج امریکہ کی مکمل سرپرستی میں 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ پر زمینی ،سمندری اور فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب تک 1 لاکھ 78 ہزار سے زائد فلسطینی شہید و زخمی ہو چکے ہیں، اور ہزاروں اب بھی ملبے تلے دبے پڑے ہیں۔