غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ کی معصوم آبادی کے خلاف چھیڑی جانے والی تباہی کی جنگ کے آغاز کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گذر گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا کو قتل عام کے مناظر کی عادت پڑنے لگی ہے اور وہ احتجاجی مارچ کے بعد خاموش رہنے پر مائل ہو گئی ہے۔ فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی جارحیت کی مذمت میں گذشتہ ایک سال کے دوران پوری دنیا میں آوازیں اٹھیں مگر اب اسرائیلی جارحیت تو اسی طرح جاری و ساری ہے مگر اس کےخلاف دنیا کی خاموشی اور بے حسی بڑھتی جا رہی ہے۔
جہاں تک عرب ملکوں کےموقف کا تعلق ہے توعرب صیہونی استکبار کے سامنے بے بس ہو گئے ہیں۔ یہی حال عرب حکومتوں کا بھی ہے جس نے غزہ کے لوگوں کو چھوڑ دیا۔ مزاحمت کرنے والے اکیلے میدان میں لڑ رہے ہیں۔
نااہلی یا ملی بھگت؟
صحافی اورمحقق ہشام جعفر نے غزہ میں نسل کشی کے سامنے عربوں کی بے بسی کی حالت کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے مضمون میں واضح کیا کہ عرب سرکاری نظام کی اب کوئی واضح شناخت نہیں ہے۔ یہ ٹکڑے ٹکڑے اور تقسیم کا شکار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بعض عرب حکومتیں نہ صرف فلسطینیوں کی حمایت میں اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں ناکام رہیں بلکہ اس نے صہیونی وجود کو عوامی سطح پر مادی اور اخلاقی مدد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ہشام جعفر نے عربوں کے اس سرکاری موقف کی وضاحت کہا کہ یہ حکومتیں حقیقت پسندی کے بہانے اپنے قومی اور اقتصادی مفادات کو اقدار پر مقدم رکھتی ہیں اور اس طرح وہ عوام کی امنگوں کو پھلانگتی ہیں۔
اگرعربوں کی نااہلی (خاموشی اور سازش) نہ ہوتی تو اسرائیلی ریاست غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف جدید تاریخ میں سب سے زیادہ گھناؤنا جرم کرنے کی جرأت نہ کر پاتی۔ تاریخ یاد رکھے گی کہ عرب خاموش رہے۔ ان میں سے بعض نے فلسطینی عوام کے قتل اور بھوک سے مرنے میں صیہونیوں کا ساتھ دیا۔
تاہم محقق نے فلسطینیوں کی حمایت میں عرب حکومتوں اور ان کے عوام کے موقف کے درمیان واضح فرق کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے دوران عرب حکومتیں زبانی بیانات اور محدود ریلیف سے آگے نہیں بڑھ سکیں جب کہ عرب عوام دل وجان کے ساتھ فلسطینی عوام کےساتھ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہشام جعفر کا خیال ہے کہ فلسطین کی حمایت اور مدد کرنے میں عربوں کی مقبولیت نہیں ہے۔ عرب اور مسلمان فلسطینیوں کی حمایت میں سب سے کم تعاون کرنے والے ہیں۔اس کا جواز ان حکومتوں کے موقف سے ہے جو ان کے لوگوں کو اظہار خیال کرنے سے روکتی ہیں اور عوام کو آزادانہ طور پر فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیوں سے روکتی ہیں۔
انہوں نے زور دے کرکہا کہ عرب شہری فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی حالت زار کو محسوس کرتے ہیں لیکن اقتصادی اور سیاسی دباؤ عام عرب برادری کو اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے ایک باوقار زندگی فراہم کرنے کے لیے خود کو وقف کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے عرب معاشرے اندرونی مسائل کا شکار ہیں۔ تنازعات اور جنگوں میں الجھے ہوئے ہیں جو مسئلہ فلسطین سے ان کی توجہ ہٹاتی ہیں۔
تباہی میں شراکت دار
غزہ میں بے گناہ لوگوں کے خلاف جنگ کے حوالے سے عالمی خاموشی کے باوجود کچھ ممالک خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے پر راضی نہیں ہوئے بلکہ درحقیقت اسرائیلی جارحیت کی حمایت میں حصہ لیا۔ ان ممالک میں سب سے آگے برطانیہ ہے جو جارحیت میں صیہونی ریاست کا امریکہ کے بعد تیسرا بڑا کفیل بن چکا ہے۔
اس تناظر میں برطانوی تحقیقاتی صحافی میٹ کینارڈ نے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ میں برطانیہ کی شرکت کے کچھ شواہد کا جائزہ لیا۔
کینارڈ نے کہا کہ “ہم قتل عام کے شرکاء کے ساتھ شامل نہیں ہیں، لیکن ہم شروع سے ہی اس سہ فریقی نسل کشی، امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے شریک رہے ہیں”۔
برطانوی صحافی نے وضاحت کی کہ اس نے نسل کشی کی جنگ کے آغاز میں قبرص کے راستے برطانیہ سے آنے والی پروازوں پر تحقیق کی جس میں بتایا گیا کہ وہاں روزانہ بڑے فوجی طیاروں کی پروازیں ہوتی ہیں جو ہتھیاروں اور دیگر فوجی ساز و سامان کے علاوہ 100 فوجیوں کو لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے تصدیق کی کہ یہ پروازیں غزہ پر روزانہ 6 گھنٹے پرواز کر رہی تھیں۔ اسرائیل کو انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کر کے اسرائیلیوں کے ساتھ شیئر کر رہی تھیں۔
انہوں نے نیویارک ٹائمز میں گذشتہ موسم گرما میں لیک ہونے والی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ نے غزہ پر جنگ میں اسرائیل کی مدد کے لیے ایک جاسوس ٹیم بھیجی تھی۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ کار فرحان علقم نے اس سوال کہ “دنیا غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر خاموش کیوں ہے؟” پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “چونکہ دنیا ان جرائم میں شراکت دار ہے۔ وہ قابض اسرائیلی ریاست کو پیسے، ہتھیار، آدمی اور سازوسامان، سفارتی مدد، بین الاقوامی فورمز میں کوریج، ان جرائم کو چھپانے اور جنگ روکنے کی کوششوں کو ناکام بنا کر صہیونی ریاست کا ساتھ دے رہی ہے۔
علقم نے مزید کہا کہ “اگر دنیا خاموش رہتی تو ہم اسے غیر جانبدار سمجھتے”۔
انہوں نے امریکی انتظامیہ، یورپ، آسٹریلیا اور کینیڈا پر الزام لگایا کہ وہ قابض ریاست کی حمایت کر رہے ہیں۔اسے استحکام کے لیے وہ تمام وجوہات فراہم کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ فلسطینی عوام کے خلاف اپنی جارحیت کو جاری رکھ سکے۔
خاموشی توڑنے کی پکار
انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم یورو-میڈیٹیرینین آبزرویٹری نے ایک بیان جاری کیا جس میں شمالی غزہ کی پٹی پر اسرائیلی مہم کی سنگینی کا انتباہ دیا گیا ہے۔ اس میں اس بات کا اشارہ دیا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کا مقصد شمالی غزہ کو خالی کرانا ہے۔ حالانکہ اس سے اسرائیل کی جانب سے سرکاری طور پر انکار کیا گیا ہے۔ جبالیہ اور بیت حانون میں پناہ گاہو پر بار باربمباری اس منصوبے کا اظہار ہے۔
آبزرویٹری نے سخت انتباہ کے باوجود بین الاقوامی خاموشی اور بے عملی کی حالت پر تنقید کی۔ اس نے کہا کہ “شمالی غزہ میں پوری فلسطینی آبادی بیماری، بھوک اور تشدد کی وجہ سے موت کے دہانے پر ہے۔ شمالی غزہ کی پٹی میں صورتحال تباہ کن ہو چکی ہے‘‘۔