غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) ایک قابل ذکر عوامی بیان میں امریکی صدر جو بائیڈن جو کہ غزہ کی پٹی پر خونریز قبضے کی جنگ کے بنیادی اسپانسر ہیں اعلان کیا کہ گراسرائیل جنوبی غزہ کے شہر رفح میں پر وسیع حملہ کرتا ہے تو وہ “اسرائیل” کو مخصوص قسم کے ہتھیار فراہم نہیں کرے گا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اس نوعیت کے ہتھیار پہلے اسرائیل کو دیے گئے تھے جنہیں اس نے غزہ میں شہری آبادی کے خلاف اندھا دھند استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔
بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ قابض افواج کی جانب سے رفح کے خلاف مسلسل تیسرے دن بھی وسیع جارحیت جاری ہے، جس میں سرحدی کراسنگ کا کنٹرول حاصل کرنا اور اسے سروس سے باہر کرنا شامل ہے مگر پھر بھی واشنگٹن کے بہ اسرائیل نے”سرخ لکیریں” عبور نہیں کیں۔ امریکہ نے اس بات کو نظرانداز کردیا کہ رفح میں دس لاکھ سے زیادہ نہتے اور معصوم لوگ اسرائیلی جارحیت کی زد میں ہیں۔
اگرچہ امریکی صدر نے پہلی بار امریکہ کے تیار کردہ مہلک ہتھیاروں کے غزہ میں اندھا دھند استعمال کا اعتراف کرتے ہوئے مزید ایسے ہتھیار تل ابیب کو نہ دینے کا عزم اعلان کیا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امریکی انتظامیہ اپنے ملک میں جاری جنگ مخالف احتجاج کو روکنے کے لیے اس طرح کے جھوٹ بو رہی ہے حالانکہ امریکہ نہ صرف اسرائیل کو اس طرح کے ہتھیار دےرہا ہے بلکہ وہ پہلے بڑی تعداد میں صہیونی ریاست کو دے چکا ہے۔
نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی
بائیڈن کے بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب نیتن یاہو نے جنگ بندی تک پہنچنے کی امریکی کوششوں کو ایک عوامی دھچکا پہنچایا۔ نیتن یاھو نے واشنگٹن کے زیر اہتمام اور حماس کی طرف سے منظور کیے گئے معاہدے کو مسترد کرنے کا اعلان کیا، جس سے ایک پائیدار جنگ بندی کے معاہدےتک پہنچنے کے لیے جنگ بندی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
بائیڈن نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ جنوبی غزہ کی پٹی کے شہر رفح پر بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کرنے سے واشنگٹن کو اسلحے کی سپلائی بند کرنے پر مجبورہوگا۔
“سی این این” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ پچھلے عرصے میں اسرائیل نے امریکہ کے فراہم کردہ “نان گائیڈڈ” بم غزہ میں شہریوں کے خلاف استعمال کیے تھے۔ انہوں نے یہ بات امریکی انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ ہفتے اسرائیل کو 900 کلوگرام وزنی بموں کی اسلحے کی کھیپ روکنے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی۔
بائیڈن نے اعتراف کیا کہ “امریکی بم فلسطینی شہریوں کی ہلاکت کا سبب بنے۔غزہ میں بہت سے شہری ان بموں اور دیگر ذرائع کی وجہ سے مارے گئے کیونکہ اسرائیل ان بموں کو غزہ میں رہائشی عمارتوں پر گراتا رہا ہے”۔
انہوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے اسرائیل کو پہلے بھی کئی بار رفح پر جامع زمینی حملے کے خلاف خبردار کیا تھا اور اس کا اظہار انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ اپنی حالیہ بات چیت میں واضح طور پر کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ “میں نے واضح طور پر تصدیق کی کہ اگر وہ رفح میں داخل ہوئے اور وہ ابھی تک اس میں داخل نہیں ہوئے ہیں تو میں انہیں وہ ہتھیار فراہم نہیں کروں گا جو رفح اور دوسرے شہروں میں استعمال ہوتے تھے”۔
ہتھیار روکنے کا جھوٹا امریکی دعویٰ
بائیڈن کے دعوے کے برعکس اسرائیلی اور امریکی رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قابض فوج کے گوداموں میں مہلک ہتھیاروں اور گولہ بارود کی نئی کھیپ پہنچی ہے، جو غزہ کی پٹی میں مسلسل آٹھویں ماہ سے نسل کشی کا جرم جاری رکھے ہوئے ہے۔
حماس اور اسرائیل کے وفود مصر میں بالواسطہ مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کی جا سکے اور قابض ریاست کی جانب سے واشنگٹن، دوحہ اور قاہرہ کے ثالثوں کی سرپرستی میں جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری سے دستبرداری کے بعد خلا کو پر کیا جا سکے۔
دہشت گردوں کی حکومت
قابض حکومت بین گویر اور سموٹریچ جیسے مٹھی بھر انتہا پسند دہشت گردوں پر مشتمل ہے اور قابض ریاست کے لیے بڑے پیمانے پر امریکی حمایت اور اس کے پہلے دن سے نسل کشی کی جنگ کی سرپرستی کے باوجود انھوں نے بائیڈن اور واشنگٹن پر تنقید جاری رکھی ہوئی ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود بائیڈن یہ کہتے ہوئے سامنے آتے ہیں کہ ان کا ملک اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اب بھی پرعزم ہے، لیکن وہ اپنے دعوے کے مطابق کچھ ہتھیاروں، بموں اور توپوں کے گولے بھیجنا بند کر دے گا جنہیں اسرائیل شہری رہائشی علاقوں میں استعمال کرتا ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر واشنگٹن چاہے تو اس تباہ کن جنگ کو قابض ریاست کے خلاف مناسب دباؤ کا طریقہ کار استعمال کر کے روک سکتا ہے کیونکہ ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ یہ تمام جنگ امریکی جرنیلوں کی نگرانی میں لڑی جا رہی ہے اور اس میں استعمال ہونے والے تباہ کن ہتھیار امریکہ فراہم کررہا ہے۔
قابض فوج کی جانب سے کی جانے والی نسل کشی کی جنگ کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں اب تک 130,000 سے زائد افراد شہید، زخمی اور لاپتہ ہوچکے ہیں، جن میں سے 70 فیصد بچے اور خواتین ہیں، اس کے علاوہ 60 فیصد سے زائد مکانات اور عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔ اور پٹی کی 90 فی ص سے زیادہ آبادی کا بے گھر ہے۔