تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
مسئلہ فلسطین ایک نظریاتی مسئلہ ہے۔فلسطین کاز کو دور حاضر میں منہدم کرنے کے لئے مغربی حکومتوں کے زیر سایہ پلنے والے عناصر نت نئے طریقوں سے کم رنگ کرنے اور فراموش کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ایسے حالات میں ہر ذی شعور کی ذمہ داری ہے کہ مسئلہ فلسطین کی حقیقت کو بیان کرے۔چاہے یہ بیان کسی تقریر کی صورت میں ہو یا کسی تحری کی صورت میں، پس اہم بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کی حقیقت اور حقائق کو بیان کیا جائے تا کہ آئندہ آنے والی نسلیں مغربی حکومتوں کے بچھائے گئے جال میں نہ پھنس پائیں۔
گذشتہ دنوں راقم کی نظر سے ایک پروگرام کا اعلان گزرا جس کا عنوان تھا اسرائیل اور فلسطین تنازعہ۔ یہ پروگرام پاکستان کے شہر کراچی کی ایک نجی درسگاہ کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے زیر اہتمام منعقد کیا جا رہا تھا۔اس پروگرام میں کراچی شہر میں موجود سرکاری اور نیم سرکاری جامعات کے مایہ ناز پروفیسر حضرات کو دعوت دی گئی تھی۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ جامعات میں تدریس کے عمل میں مصروف اساتذہ آج تک مسئلہ فلسطین کی حقیقت سے آشنا نہیں ہو پائے ہیں اور کم علمی یا کم نظری کا نتیجہ یہ ہے کہ جامعات میں سیمینارز بعنوان اسرائیل فلسطین تنازعہ کا انعقاد کیا جا رہاہے۔ حقیقت میں اس معاشرے کے دانشور طبقہ کو ضرورت ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کی نظریاتی اور حقیقی بنیاد سے آشنا ہوں اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ اسرائیل فلسطین تنازعہ اتنا سادہ سی بات نہیں ہے کہ جس کو محدود سے محدود کر کے فقط اسرائیل فلسطین تنازعہ کا نام دیا جائے۔اس طرح کی اصطلاحات کے استعمال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یا تو مسئلہ فلسطین سے متعلق کم علمی ہے یا پھر مغربی حکومتوں کا ایجنڈا ہے تا کہ مسئلہ فلسطین کو محدود سے محدود کر دیا جائے اور نئی نسلوں کے اذہان کو کنفیوز کیا جائے۔بہر حال یہ تو ایک بات ہے جو مشاہدے میں آ چکی ہے تاہم اصل مدعا کو سمجھانے کے لئے یہاں بیان کی گئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جس طرح کچھ دانشور طبقات مسئلہ فلسطین کو فقط اسرائیل کے ساتھ ایک تنازعہ کی صورت میں دیکھتے ہیں تو کیا واقعی اس بات میں کوئی سچائی یا حقیقت موجود ہے؟ مطالعہ کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر گز ایسا نہیں ہے۔ایسا سوچنے والے دانشور طبقات غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اگر واقعی اسرائیل کو فلسطین سے ہی کوئی مسئلہ ہوتا تو پھرتو آج اسرائیل تقریبا اسی فیصد فلسطین پر قابض ہے باقی ماندہ فلسطین غزہ کی پٹی بھی اسرائیل کے محاصرے میں ہے۔ تو ایسے حالات میں تو اسرائیل کے لئے کوئی مشکل ہی نہیں ہے۔اور پھر ایسے حالات میں فلسطین اور اسرائیل تنازعہ تو بنتا ہی نہیں ہے۔
اب اگر معاملہ کو دقیق بینی کے ساتھ مشاہدہ کریں توہمیں تاریخ ییہ بتاتی ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل صرف فلسطین پر قابض ہونے پر اکتفا نہیں کر رہی ہے۔بلکہ غاصب صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ پالیسیاں یہ بتاتی ہیں کہ مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں بلکہ غاصب اسرائیل فلسطین سمیت خطے کے تمام علاقوں پر کنٹرو ل چاہتا ہے۔جیسا کہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی کے تحت گریٹر اسرائیل کا نظریہ اور پھر اس نظریہ کے تحت لبنان، شام اور اردن سمیت مصر کے علاقوں پر قبضہ کرنا۔پھر گذشتہ چند سالوں میں شام اور عراق میں داعش کو جنم دینا اور دونوں ممالک کے ٹکڑے کرنے کا پلان کرنا یہ سب غاصب صیہونی حکومت کے وہ ناکام کارنامے ہیں جو اسرائیل کے مد مقابل اسلامی مزاحمت نے ناکام بنا ڈالے ہیں۔
اسی طرح غاصب صیہونی حکومت کی پچھتر سالہ عمر کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں تاریخ میں یہ سوال ابھرتا ہو ضرور نظر آتا ہے کہ کیا اسرائیل صرف فلسطینیوں کا قاتل ہے؟ کیا اسرائیل کے قیام کا مقصد صرف اورصرف فلسطین پر قبضہ جمانا تھا؟ جب یہ سوال جنم لیتے ہیں تو پھر موجودہ زمانے کے نام نہاد دانشوروں کی فکر بھی باطل نظر آتی ہے کہ جو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل تنازعہ۔ان دانشوروں کا کچھ پرانا ماڈل یہ کہتا ہوا نظرا ٓتا ہے کہ مسئلہ فلسطین عرب ممالک اور اسرائیل کا مسئلہ ہے تاہم یہ بھی اپنے اس نظریہ میں کامیاب نہیں ہو پائے۔
دراصل غاصب صیہونی حکومت کے قیام سے اب تک دنیا یہ بات مشاہدہ کر چکی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کا مقصد صرف فلسطین پر قبضہ یا فلسطینیوں کا قتل عام کرنا نہیں بلکہ خطے میں موجود تمام دیگر ممالک پر بھی اپنا مکمل تسلط حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس تسلط کی بقاء کے لئے علاقہ کی مظلوم عوام کا قتل کرنا ہے۔غاصب صیہونی حکومت کی پچھتر سالہ تاریخ میں جہاں ہزاروں فلسطینیوں کا بہیمانہ قتل عام ہے وہاں ساتھ ساتھ اردن اور مصرکے علاقوں پر قبضہ کے ساتھ ساتھ وہاں کے عوام کو قتل کرنے کے واقعات بھی موجود ہے۔غاصب صیہونی حکومت کی سیاہ تاریخ میں عراق میں دہشتگردانہ صیہونی حملے بھی نمایاں ہیں۔اسی طرح غاصب صیہونی حکومت کی لبنان پر فوجی چڑھائی اور قبضہ سمیت لبنانی عوام کا قتل عام کرنے کے ساتھ ساتھ جیلوں میں قید کرنا اور بد ترغیر انسانی سلوک روا رکھنا بھی چیخ چیخ کر غاصب صیہونی حکومت کی اصلیت کو بیان کرتا ہے۔مزید غزہ میں مسلسل بمباری اور جنگیں، لبنان کے ساتھ جنگیں، لبنان کے شعبا فارمز پر قبضہ، شام کی جولان کی پہاڑیوں پر صیہونی قبضہ، آئے روز شامی دارلحکومت دمشق میں صیہونی جارحیت اور بمباری کے واقعات اور گذشتہ دس سالوں میں شام اور عراق میں داعش کے وجود کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ داعش جیسی خونخوار دہشت گرد تنظیم کی مالی اور مسلح معاونت کرنا غاصب صیہونی حکومت کے تمام تر ناپاک عزائم کو آشکار کرتے ہیں۔غاصب صیہونی حکومت کی دہشتگردی کا جنون اس قدر ہے کہ امریکی بحریہ پر بھی حملہ کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔کئی ایک امریکیوں کی قاتل بھی صیہونیوں کی غاصب ریاست اسرائیل ہے۔
یہ سارے واقعات چیخ چیخ کر تاریخ کے اوراق پر بتا رہے ہیں کہ غاصب صیہونی حکومت صرف فلسطین پر قبضہ کی خواہاں نہیں ہے اور نہ ہی صرف فلسطینیوں کے قتل عام پر اکتفا کرتی ہے۔بلکہ یہ ایک ایسی ناجائز ریاست ہے کہ جو امریکہ اور برطانیہ کی ایماء پر فلسطین کی سرزمین پر قائم کی گئی اور دنیا بھر میں دہشتگردی کو پروان چڑھانے کا مرکز و محور ہے۔لہذا ہم یہ کہتے ہیں کہ غاصب صیہونی حکومت صرف اور صرف فلسطینی عوام کی قاتل نہیں بلکہ پوری انسانیت کی دشمن ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کو ایک عالمی اور اسلامی مسئلہ کے ساتھ ساتھ دنیا میں ایک انسانی مسئلہ ہونے کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے۔آج ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے با شعور اور دردرکھنے والے انسانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ مسئلہ فلسطین کی حقیقت کو بیان کریں، مسئلہ فلسطین کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بیان کریں، مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے ہونے والے فلسطینی عوام کی کوششوں میں ان کی مدد کریں،غاصب صیہونی حکومت کے انسانیت سول مظالم کو دنیا کے سامنے اور خاص طور پر نئی نسل کے سامنے آشکار کریں اور بیان کریں۔دنیا کو غاصب صیہونی حکومت کا بد ترین سیاہ چہرہ دکھائیں۔یہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور یقینا یہ تمام کام مظلوم فلسطینیوں کی آزادی کی راہ میں ایک اہم سنگ میل کا کردار ادا کریں گے