تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
فلسطینی عوام تقریبا 76سال سے آزاد ی ک جنگ لڑ رہے ہیں۔ فلسطینی اپنے حق کے حصول کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ پوری دنیا میں شاید ہی ایسی کوئی مثال ہے جو فلسطین جیسی ہو کہ جہاں ان کے اپنے گھرو ں اور زمین پر قبضہ کیا گیا۔ ایک ریاست کے اندر دوسری ریاست کو ناجائز طریقہ سے قائم کیا گیا اور پھر قتل و غارت اور ظلم کی طویل داستان جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔
پاکستان بننے سے پہلے پاکستان کی قیادت نے ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کی۔ اس زمانہ میں جب صیہونیوں کو فلسطین بسانے کی کوشش کی جا رہی تھی تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کھل کر اس کی مخالفت کی اور برطانوی استعمار کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے لئے فنڈ قائم کیا اور برصغیر کے مسلمانوں کو واضح اور شفاف پالیسی دیتے ہوئے بتا دیا کہ فلسطین پر بننے والی صیہونیوں کی یہ ریاست ناجائز تصور کی جائے گی۔بعد میں بھی ایسا ہی ہو جب غاصب اسرائیل وجود میں آیا تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے تمام پیش کش کو مسترد کیا اور اسرائیل کو امریکہ اور مغربی ممالک کی ناجائز اولاد قرار دیا۔دوٹوک موقف اپناتے ہوئے کہاکہ پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔آج حکومتی عہدیدار قائد اعظم کے بیان کے ساتھ اپنا بیان جوڑ دیتے ہیں اور کہتے کہ پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا جب تک فلسطین آزاد نہیں ہو جاتا۔ یہ بیان غلط ہے اور قائد اعظم نے کسی موقع پر ایسی بات نہیں کی۔صرف اتنا کہا کہ پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔
بہر حال پاکستان کے عوام کا بھی فلسطین کے ساتھ ایک خاص رشتہ ہے جو مذہبی اور انسانی بنیادوں پر قائم ہے۔ اس لئے پاکستان میں فلسطین کی حمایت ہر شہری کے دین اور ایمان کا حصہ قرار پاتی ہے۔پھر قائد اعظم محمد علی جناح کے فرامین اور اقدامات کی روشنی میں فلسطین کی حمایت پاکستان کے نظریہ کا حصہ بن چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی بنیادی اصولوں میں فلسطین کی حمایت کو اہم مقام حاصل ہے۔ہمارے پاسپورٹ پر باقاعدہ لکھا ہوا ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا۔یہ ہمارے لئے فخر اور افتخار کی بات ہے ۔
سات اکتوبر سے غزہ میں جنگ جاری ہے۔ پوری دنیا میں غزہ کے لئے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔فلسطینی عوام کی باقاعدہ نسل کشی کی گئی ہے۔ سب کچھ تباہ و برباد کیا گیا ہے۔ اس تباہی کے پیچھے امریکہ براہ راست غاصب اسرائیل کا ساتھی رہا ہے۔برطانیہ بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے۔بہر حال سات اکتوبر کے طوفان اقصیٰ کے بعد سے پوری دنیا میں لوگوںنےفلسطینیوں کے ساتھ اپنی حمایت کا مظاہرہ کیا ہے۔امریکہ ، برطانیہ، جرمنی، اٹلی ،فرانس اور دیگر یورپی ممالک کے شہروں کے ساتھ ساتھ عرب و غیر عرب مسلم ممالک میں بھی عوام نے بھرپور احتجاج کیا۔پاکستان میں بھی عوامی سطح پر بہت زیادہ گرمجوشی دیکھی گئی ۔آج غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے۔ جنگ بھی جاری ہے۔ فلسطینی اپنی مدد آپ دفاع کر رہے ہیں۔کسی سے کوئی مدد بھی نہیں مانگ رہے۔کسی سے کوئی شکوہ بھی نہیں کر رہے۔لیکن پاکستان سے ہمیشہ فلسطینی عوام کی توقعات رہی ہیں۔فلسطینیوں نے ہمیشہ پاکستان کے لئے اپنی محبت اور جذبوں کا اظہار کیا ہے۔ہمیشہ فلسطینیوں کو مشکل وقت میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے زیادہ پاکستان سے توقع اس لئے بھی زیادہ رہی ہے کیونکہ ماضی میں پاکستان کے حکمرانوں اور عوام نے ہمیشہ فلسطین کی صف اول میں مدد کی ہے۔ یہاں تک کہ ہماری پاکستان فضائیہ نے دو جنگوں میں بھی فلسطین کی مدد کی ہے اور اسرائیل کے طیارے مار گرائے ہیں۔لیکن اس کے بعد سے ایسا لگ رہاہے کہ امریکہ اور کچھ عرب ممالک نے ہمارے حکمرانوں کو معیشت اور اقتدار کی لالچ میں ایک ایسے نقطہ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں آج حیرت انگیز طور پر پاکستان کا حکمران طبقہ فلسطین کی اس طرح حمایت کرنے سے قاصر نظر آتا ہے جس طرز پر قائد اعظم محمد علی جناح اور نظریہ پاکستان ہم سے تقاضہ کرتا ہے۔ عوام کا بھی اب ایسا ہی کچھ حال ہو چکا ہے۔ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کے جال میں پھنسا کر حکمرانوں اور عالمی استعماری اتحادیوں نے اس سطح پر پہنچا دیا ہے کہ بہت ہی معمولی اور لوکل مسائل کو توجہ دینے کے لئے تیار ہیں لیکن باہمی اتحاد کے ساتھ مسئلہ فلسطین کی اس حمایت تک پہنچنے سے قاصر ہیں جو ہمارے آبائو اجداد نے ماضی میں کی ہے۔
شاید آج کے حکمران ایسا سوچ رہے ہیں کہ فلسطین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور گزشتہ ایک سال سے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کا پاکستان پر کوئی اثر مرتب نہیں ہو گا تو یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ ہم براہ راست یا بالواسطہ اس جنگ کے اختتام سے متاثر ہوں گے اور آج بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ سوال یہاں پر یہ ہے کہ کیا ہم فلسطین کے کیمپ می کھڑے ہیں ؟ یا پھر امریکہ اور ان مغربی اتحادیوں کے کیمپ میں ہیں جو غاصب اسرائیل کو اسلحہ اور مدد دے کر فلسطینیوں کی نسل کشی کروا رہے ہیں؟ اگر ہم دوسرے کیمپ میں ہیں تو ا سکا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے اندر ہی اندر اپنی غیرت اور حمیت اور نظریہ پاکستان کا سودا کر لیا ہے اور ہم اسرائیل کے ساتھ کمفرٹ زون میں کھڑے ہیں ۔پھر حکمرانوں کویہ جان لینا چاہئیے کہ غزہ کی نسل کشی میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ پاکستان کے حکمران اور عوام سوچ بچار کریں کہ آیافلسطینیوں کی ہم سے کیا توقعات اور امیدیں ہیں ؟ اور ہماری کیا ذمہ داری ہے ؟ بطور انسان ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے ؟ بطور مسلمان ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ اور پھر قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کا شہری ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے ؟ یقین جان لیں کہ اگر ہم من حيث القوم فلسطین کی حمایت کے لئے بیداری کا ثبوت دیں او اپنا اپنا فرض حکومتی اور عوامی سطح پر ادا کریں تو غزہ سمیت لبنان وشام میں جاری جنگ کا نقشہ بدل جائے گا۔اسی طرح اگر ہم نے اور ہمارے حکمرانوں نے غفلت سے کام جاری رکھا تو یہ بات بھی یقین کر لیں کہ یہ غفلت صرف فلسطین کے لئے نہیں بلکہ ہم سب کے لئے کسی ایسے خسارے کا سبب بن سکتی ہے جو ناقابل تلافی ہو اور تاریخ بھی ہمیں معاف نہ کرےگی۔
آج مسئلہ فلسطین کی حمایت کے لئے لبنانی و عراقی ویمنی و ایرانی وشامی اقوام نے باقاعدہ طے کرلیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے عملی مدد گار بن کران کی مدد کریں گے اور امریکہ سمیت عالمی سامراجی و استعماری طاقتوں کی ناجائز اولاد اسرائیل کو یہ جنگ جیتنے نہیں دیں گے۔ان اقوام نے یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ جب تک ہماری جان میں جان ہے ، ہماری سانسیں چل رہی ہیں نہ تو ہم حماس کا خاتمہ ہونے دیں گے اور نہ ہی فلسطینی عوام کو تنہا ہونے دیں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہم بطور پاکستانی کیا کر سکتے ہیں اور ہمارے حکمران کیا کر سکتے ہیں؟عوام کا کام ہے کہ وہ عوامی سطح پر فلسطینیوں کی حمایت میں سستی نہ کرے۔احتجاج ریلیاں مظاہرے اور ہر وہ کام جو فلسطین کاز کی حمایت کا باعث بنے انجام دیں۔فلسطینی عوام کی اخلاقی، مالی و سیاسی ہر عنوان سے مدد کریں۔جو جس قدر استطاعت رکھتا ہے وہ اتنا کام ضرور انجام دے اور اس میں ایک فیصد بھی کوتاہی نہ کرے۔اسی طرح حکومت کا کام ہے کہ وہ حکومتی سطح پر فلسطینیوں کا مقدمہ عالمی سطح پر فلسطینی عوام کی خواہشات کے مطابق لڑے نہ کہ امریکی و مغربی دھوکہ باز معاہدوں کی روشنی میں فلسطین کاز کو نقصان پہنچے۔
حالانکہ پاکستان سے حکومتی سطح پر اور عوامی سطح پر فلسطینیوں کو بہت امیدیں تھیں۔ پاکستان ایک بڑا ملک ہے یہاں کم از کم ملین مارچ ہر ہفتے ہونے چاہئیں تھے۔جیسا کہ پاکستان سے چھوٹے ملک یمن میں ہوتے ہیں۔جہاں ہر جمعہ کو لاکھوں یمنی شہری نکل کر فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر آتے ہیں۔پاکستان سے غزہ اور فلسطینی عوام کے لئے ہر ماہ امدادکا سلسلہ جاری رہنا چاہئیے جو کہ حکومت نے شروع کیا تھا اس کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہر مسجد و بازار میں فلسطینیوں کے لئے امدادی کیمپ لگنے چاہئیں۔۔ ہر گھر و گلی و محلہ اور شاہراہ پر فلسطین کے جھنڈے سر بلند ہونے چاہئیں تھے ،عوامی اور ملکی سطح پر سو فیصد ایسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جاتا جن کا تعلق براہ راست اور بالواسطہ ایسی حکومتوں کے ساتھ ہے جو غاصب اسرائیلی دشمن کی مدد کر رہے ہیں۔
اگرکچھ عالمی مجبوریوں کے باعث پاکستان فلسطین سے جڑی ہوئی عسکری مزاحمت میں شریک نہیں ہو سکتا ہے تو کم از کم غاصب صیہونی دشمن کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی مالی وسائل واسباب کی مدد فراہم کرے۔ فلسطینیوں کی مظلومیت کی بھرپور آواز بن کر ہم پاکستانی دنیا بھر کی ہر زبان میں اور ہر جگہ پر میڈیا سوشل میڈیا وغیرہ میں دنیا کے ضمیر جھنجوڑ سکتےہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی عوام نے ایشیائی عوام سے زیادہ فلسطینیوں کے لئے آواز بلند کی ہے۔اور کم سے کم اپنے انسان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
آئیں اب اس جنگ کو ایک سال ہونے والا ہے ایک بڑی عوامی حمایت کی لہر کوپاکستان کے ہر شہر میں شروع کریں۔ ہر ایک اس میں عملی حصہ دار بنے اور میدان میںآ جائے۔ تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک نقاطی ایجنڈے یعنی فلسطین کی حمایت کی خاطر ایک ہو کر آواز اٹھائیں۔ حکومت بھی اسی طرح فرنٹ پر آ کر فلسطین کی حمایت کرے ۔آج حکومتی اداروں میں ایسا ماحول بنایا جا رہاہے کہ فلسطین کی بات کرنے کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت ایسی کوششوں کے خلاف اقدامات کرے۔یاد رکھیں ہم سب سے غزہ کا سوال کیا جائے گا ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں لوگ ابتداء میں بہت نکلے ہیں۔ لیکن اب آہستہ آہستہ بھول بیٹھے ہیںتاہم ہمیں جاگنا ہو گا۔ ہم سب کو بیدار ہونا ہو گا۔جنگ شدت اختیار کر چکی ہے۔ فلسطین آج ہم سب کی مدد کا پہلے سے زیادہ منتظر ہے۔آئیں حکومتی سطح پر اور عوامی سطح پر ایک ہو کر فلسطینیوں کی حمایت کے لئے اقدامات کریں ۔بصورت دیگر کل ہم شرمندہ ہونے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔