Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

’ما خفی أعظم‘: شہیدہ ہند رجب کے قاتل صہیونی بے نقاب

برسلز ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )بیلجیم کے دارالحکومت برسلز سے شروع ہونے والی تفتیشی دستاویزی رپورٹ ’’ما خفی أعظم‘‘ نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چھ سالہ فلسطینی بچی ہند رجب کی مظلومیت اور معصومیت کی علامت بن چکی تصویر کے ساتھ یہ تحقیق نہ صرف ایک لرزہ خیز جرم کی پرتیں کھولتی ہے بلکہ غزہ میں بچوں کے قتلِ عام کے ذمہ دار صہیونی درندوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی ایک نئی کوشش بھی ہے۔

یہ تحقیق بیلجیم میں قائم ’’ہند رجب‘‘ نامی ادارے سے شروع ہوئی جہاں ماہرین نے ان ثبوتوں کے سلسلے کو جوڑا جو اب صہیونی فوج کے ان درندوں اور افسروں کے تعاقب میں بدل چکا ہے جو غزہ میں نسل کشی کی بدترین کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

نامور صحافی تامر المسحال کی نگرانی میں تیار کی گئی اس رپورٹ نے ناظرین کو ڈیجیٹل آرکائیوز سے لے کر غزہ کے تباہ شدہ محلوں تک پہنچایا جہاں ایک فلسطینی خاندان کی کار کو جنوری سنہ2024ء کے آخر میں تل الہوا کے علاقے میں براہِ راست نشانہ بنایا گیا۔

اسی کار میں چھ سالہ ہند اپنی شہید ماں کے پہلو میں دبکی ہوئی، خوف زدہ آواز میں فون پر آخری الفاظ بول رہی تھی: ’’ٹینک میرے بالکل پاس ہے‘‘۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی ۔ ہمیشہ کے لیے۔

یہی وہ لمحہ تھا جس نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک طرف صہیونی فوج کی جانب سے علاقے میں اپنی موجودگی سے انکار، دوسری طرف تحقیقاتی ٹیم کے ہاتھ ایسے ناقابلِ تردید شواہد لگے جنہوں نے جھوٹ کی ہر پرت کھول دی۔ سیٹلائٹ تصاویر، ریکارڈ شدہ کالز، قانونی شہادتیں اور جدید ترین آڈیو و ویژول تجزیوں نے اس قتلِ عام کی سچی تصویر سامنے رکھ دی۔

’’ما خفی أعظم‘‘ کی ٹیم نے لندن کی یونیورسٹی گولڈ اسمتھ کے تحقیقی مرکز ’’فورنزک آرکیٹیکچر‘‘ کے ساتھ مل کر جائے واردات کی لمحہ بہ لمحہ تخلیق کی۔ نتیجہ چونکا دینے والا تھا: ہند کے خاندان کی گاڑی پر صرف 23 میٹر کے فاصلے سے کھڑی ایک اسرائیلی ٹینک سے 335 گولیاں داغی گئیں۔

صہیونی جھوٹ کا پردہ چاک

یہ تجزیہ قابض اسرائیلی فوج کے جھوٹے بیانیے کو مکمل طور پر باطل قرار دیتا ہے۔ ’’فرضی جھڑپ‘‘ کا دعویٰ بے نقاب ہو گیا کیونکہ فائرنگ ایک ہی سمت سے مسلسل ہوئی۔ فی سیکنڈ 900 گولیوں کی رفتار سے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گاڑی کسی جنگی تصادم میں نہیں بلکہ ایک منظم فوجی حملے کا نشانہ بنی تھی ۔ ایک ایسی کار جس میں محض بچے اور عورتیں سوار تھیں۔

تحقیق نے اس جرم کے ذمے داروں کو شناخت کے ساتھ بے نقاب کیا۔ اسرائیلی آرمرڈ بریگیڈ 401 اس کارروائی میں براہِ راست ملوث ثابت ہوا جس کی کمان اُس وقت افسر بنی اہارون کر رہا تھا۔ مزید تحقیقات میں 52ویں بٹالین کو بطورِ عمل درآمد کرنے والی یونٹ شناخت کیا گیا جس کی قیادت کرنل دانیئل ایلا کے پاس تھی۔

سب سے ہولناک انکشاف یہ تھا کہ فائرنگ کرنے والی کمپنی کا نام ’’ایمپائر آف ویمپائرز‘‘ (خون چوسنے والوں کی سلطنت) رکھا گیا تھا جس کی قیادت افسر شون گلاس کر رہا تھا۔ گلاس اپنے فوجیوں کو ’’ایسے درندے جو کبھی پیچھے نہیں ہٹتے‘‘ کے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ یہی گلاس تھا جس نے ہند کی گاڑی پر فائر کھولنے اور بعد میں اس ایمبولینس کو نشانہ بنانے کا حکم دیا جو بچی کو بچانے پہنچی تھی۔

تمام ثبوت اب ’’ہند رجب‘‘ فاؤنڈیشن کے ذریعے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جمع کرا دیے گئے ہیں۔ ادارے کے سربراہ دیاب ابو جہجہ نے تصدیق کی کہ شون گلاس، کرنل ڈانیئل ایلا اور ایک اور فوجی ایتائی شوکیریکوف جو اسرائیلی و ارجنٹائنی دوہری شہریت رکھتا ہے کے خلاف مقدمات دائر کر دیے گئے ہیں۔ ارجنٹائن کی عدالت نے اس مقدمے پر باقاعدہ سماعت کا آغاز بھی کر دیا ہے۔

غزہ کی منظم تباہی کے شواہد

تحقیق نے قابض اسرائیلی فوج کے انجینئرنگ یونٹ کی بھی لرزہ خیز کارروائیاں بے نقاب کیں۔ ان میں سے ایک گنہگار، فوجی شمعون زوکرمان خود اپنی ویڈیوز میں خان یونس کے مشرقی علاقے خزاعہ میں درجنوں گھروں کو دھماکوں سے اڑاتے دکھائی دیتا ہے۔

یہ ویڈیوز اب اس کے خلاف ٹھوس عدالتی ثبوت بن چکی ہیں اور چونکہ زوکرمان جرمن شہریت بھی رکھتا ہے، اس لیے اس کے خلاف جرمنی میں باضابطہ قانونی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔

جرمن وکیل میلانی شفیٹزر نے کہا کہ یہ کیس ’’نسل کشی کے مجرم کی خود ساختہ اعترافی فلم‘‘ ہے۔ ان کے مطابق زوکرمان اپنے مظالم پر ایسے جشن منا رہا ہے جیسے کسی ایکشن فلم کا ہیرو ہو۔

اسی طرح ایک اور فوجی آدی کارنی کو برازیل اور پیرو میں مقدمات کا سامنا ہے۔ ویڈیوز میں وہ غزہ کی عمارتوں میں بارودی مواد نصب کرتے اور تباہی کے مناظر کو مسکراتے ہوئے دیکھتا ہے۔ پیرو کی حکومت نے اس کے خلاف باضابطہ تحقیقات شروع کر دی ہیں، جو اسرائیلی فوجی کے خلاف اپنی نوعیت کی پہلی بین الاقوامی عدالتی کارروائی ہے۔

تحقیق کے مطابق قابض اسرائیل نے ایسے تمام فوجیوں کو پکڑ سے بچانے کے لیے خفیہ فضائی نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جس کے ذریعے خصوصی طیاروں اور فوجی اڈوں سے ان کی منتقلی عمل میں لائی جاتی ہے۔

جرائم سے فرار اور عالمی انصاف کا امتحان

بین الاقوامی جج ڈونلڈ پیٹر ہربرٹ، جو روانڈا کے مقدمات میں بھی شریک رہ چکے ہیں، نے کہا کہ ’’یہ تحقیقات عالمی انصاف کے نظام کا امتحان ہیں۔‘‘ ان کے مطابق جغرافیائی سیاست کے دباؤ کے باوجود ان مقدمات کا آغاز دنیا میں مجرموں کو سزا سے بچنے کی روایت کے خاتمے کی امید بن سکتا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ بین الاقوامی تعاون اور انٹربول کے ذریعے کارروائی سے ایسے صہیونی فوجیوں کی نقل و حرکت محدود ہو سکتی ہے جو جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔

ادھر اسرائیلی سکیورٹی ماہر یوسی میلمن نے تسلیم کیا کہ ’’غزہ میں ہونے والی جنگی تحقیقات اب اسرائیلی فوج کے لیے ایک حقیقی ڈراؤنا خواب بن چکی ہیں۔‘‘ ان کے مطابق اب موساد اور شاباک کے اہلکار بیرونِ ملک سفر سے قبل اپنے خلاف جاری ممکنہ گرفتاریوں کے خطرات کا جائزہ لینے پر مجبور ہیں۔

تحقیق کے مطابق کئی گواہان، جنہوں نے ان جرائم کی تفصیلات فراہم کیں، بعد ازاں غزہ میں شہید کر دیے گئے۔ ’’ہند رجب‘‘ فاؤنڈیشن کے شریک بانی کریم حسون نے بتایا کہ ہر وہ شخص جو قابض اسرائیلی فوج کے جرائم کے ثبوت رکھتا ہے، خود ایک ممکنہ ہدف بن جاتا ہے۔

تحقیق کا اختتام اسی مقام پر ہوا جہاں انصاف کی سب سے بڑی امید زندہ ہے — ہیگ میں واقع بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دروازوں پر، جہاں اب تک ایک ہزار سے زائد مقدمات قابض اسرائیلی فوجیوں اور افسروں کے خلاف درج ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کئی فائلیں یورپی اور امریکی عدالتوں تک پہنچ چکی ہیں۔

 

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan