مقبوضہ بیت المقدس ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )قابض اسرائیل کی درندہ صفت بلدیہ نے مقبوضہ مشرقی القدس میں ظلم و جبر کا ایک اور باب رقم کر دیا۔ آج منگل کی صبح الطور کے علاقے میں فلسطینی شہری ناصر یوسف ابو رمِیلہ کو اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا گھر مسمار کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ قابض بلدیہ نے حسبِ روایت “بغیر اجازت تعمیر” کا بہانہ تراش کر ایک اور معصوم خاندان کے سر سے چھت چھین لی۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ القدس میں فلسطینی وجود کو مٹانے اور شہر کو یہودیانے کے صہیونی منصوبے کی ایک منظم سلسلے کی کڑی ہے۔ ابو رمِیلہ خاندان کے لیے یہ دوہرا دکھ تھا ۔ ایک طرف اپنے خون پسینے سے بنائے گھر کو زمین بوس کرنے کا صدمہ، دوسری جانب قابض حکومت کے ظالمانہ جرمانوں سے بچنے کی مجبوری۔ اگر وہ خود گھر نہ گراتے تو قابض بلدیہ اپنی ٹیم کے ذریعے انہدام کر کے بھاری لاگت بھی انہی سے وصول کرتی۔
یہ دلخراش مناظر القدس کے مختلف محلوں میں اب معمول بن چکے ہیں۔ فلسطینی خاندان اپنی جڑوں سے وابستہ رہنے کے لیے لڑ رہے ہیں مگر قابض اسرائیلی مشینری ان کے گھروں، خوابوں اور شناخت کو ایک ایک کر کے مسمار کر رہی ہے۔
قابض اسرائیلی حکام “بغیر اجازت تعمیر” کے نام پر فلسطینیوں کو اجازت نامے دینے سے عملاً انکار کرتے ہیں، مگر انہی زمینوں پر صہیونی آبادکاروں کے لیے نئی بستیاں قائم کر کے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ یہ عمل القدس کی جغرافیائی اور آبادیاتی ساخت کو مکمل طور پر بدلنے کی صہیونی سازش کا حصہ ہے تاکہ شہر کو فلسطینی آبادی اور مغربی کنارے سے الگ کر کے گریٹر اسرائیل کے منصوبے میں شامل کیا جا سکے۔
اعداد و شمار کے مطابق قابض اسرائیل نے رواں سال کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی القدس میں سیکڑوں گھروں اور عمارتوں کو مسمار کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی، بالخصوص خواتین اور بچے، بے گھر ہو چکے ہیں۔
یہ مجرمانہ سلسلہ اس وقت مزید تیز ہوا جب غزہ میں قابض اسرائیل نے اجتماعی نسل کشی کی جنگ مسلط کی۔ مغربی کنارے، القدس اور غزہ میں صہیونی درندگی ایک ہی منصوبے کی مختلف شکلیں ہیں — فلسطینی سرزمین کو خالی کرنا، مزاحمتی روح کو کچلنا اور صہیونی قبضے کو مستحکم کرنا۔
فلسطینی عوام اس ظلم کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کے گھروں کی دیواریں گر سکتی ہیں مگر ان کے ایمان، عزم اور سرزمینِ فلسطین سے وابستگی کو کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی۔