غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) ناروے کے وزیر برائے بین الاقوامی ترقی اسموند اوکروست نے غزہ کی صورتِ حال کو “ایک حقیقی جہنم” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو فوری طور پر حرکت میں آ کر اس قتل و غارت گری کو روکنا چاہیے اور اس کے ذمہ داروں کا بین الاقوامی عدالت انصاف میں سیاسی اور عسکری سطح پر احتساب کیا جانا چاہیے۔
جنوبی افریقہ سے ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں اوکروست نے واضح الفاظ میں کہا کہ غزہ کی حالت اب ماضی کے تمام ادوار سے زیادہ ابتر ہو چکی ہے، جہاں قابض اسرائیل کے ظلم و جبر نے بین الاقوامی قوانین کی ہر حد پار کر دی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ناروے ایک طویل عرصے سے جنگ کے خاتمے اور انسانی امداد کی فوری رسائی کے لیے آواز بلند کرتا رہا ہے، اور اب یورپی ممالک کے ساتھ مل کر مزید مؤثر اور ٹھوس مؤقف اپنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ہر ممکن طریقے سے غزہ کے مظلوموں کی مدد کی جا سکے۔
اوکروست نے کہا کہ وہ یورپ میں بڑھتی ہوئی اس بیداری اور مزاحمت سے پُرامید ہیں جو قابض اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف سامنے آ رہی ہے۔ ان کے مطابق، امریکہ میں جلد ہونے والا اجلاس اہم ثابت ہوگا کیونکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ایسے مشکل حالات میں یورپ کیا مؤقف اختیار کرتا ہے۔
انہوں نے دنیا کو متنبہ کیا کہ غزہ میں ہر گزرتا لمحہ مزید فلسطینیوں کے لیے خطرہ ہے، کیونکہ وہ ناقابلِ تصور مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ میں منعقدہ گروپ ٹوئنٹی اجلاس میں غزہ کا انسانی المیہ سرفہرست موضوع بنا ہوا ہے۔
اوکروست نے مطالبہ کیا کہ ان جرائم کے ذمہ داروں کو فوری طور پر سیاسی اور عسکری سطح پر جواب دہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے قابض اسرائیل کے مظالم کو واضح طور پر جرم قرار دینا انتہائی ضروری ہے۔
ناروے کے وزیر نے اس امر پر بھی سخت اعتراض کیا کہ قابض اسرائیل نے امدادی سامان کی ترسیل و تقسیم کے لیے جو نظام تجویز کیا ہے، وہ کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ناروے نے فلسطینی اتھارٹی، انروا اور ان تمام عالمی اداروں کی امداد میں اضافہ کیا ہے جو غزہ میں خوراک، پانی اور دیگر بنیادی اشیائے ضروریہ پہنچا سکتے ہیں۔
اوکروست نے کہا کہ اس وقت غزہ میں فوری امداد کی فراہمی سب سے زیادہ ضروری ہے اور ناروے فلسطینی عوام کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ناروے نے فلسطینی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے اور اب وہ ان کے ساتھ براہِ راست کام کر رہا ہے تاکہ وہ اس وحشیانہ جنگ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے نکل کر دوبارہ اپنی زندگی کو تعمیر کر سکیں۔