نقب – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیلی ریاست کی بلڈوزر پالیسی کا ظالمانہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ صحرائے نقب کے جنوبی علاقے میں واقع غیر تسلیم شدہ فلسطینی گاؤں عراقیب کو 243ویں مرتبہ مسمار کر دیا گیا۔
یہ گاؤں جسے پہلے ہی زبردستی بےدخل کیے جانے اور مکمل طور پر مٹائے جانے کی دھمکیوں کا سامنا ہے، ایک بار پھر قابض اسرائیلی مشینری کی درندگی کا نشانہ بن گیا۔
رواں برس سنہ2025ء کے آغاز سے اب تک صرف اس سال کے دوران عراقیب کے مکانات اور خیمے نو مرتبہ گرائے جا چکے ہیں۔ ان مکانات میں وہی معصوم خاندان رہائش پذیر تھے جن کے پاس نہ کوئی اور جائے پناہ ہے، نہ ہی سرد و گرم کا بچاؤ۔
قابض اسرائیلی فورسز نے آج دوپہر کو بڑی تعداد میں پولیس اور سکیورٹی یونٹوں کے ہمراہ گاؤں پر دھاوا بولا، اور بھاری مشینری کی مدد سے اہلِ گاؤں کے سروں سے ان کے چھتیں چھین لیں۔ وہ بھی اس شدید گرمی میں جب سورج کی جھلسا دینے والی تپش نے زمین کو آگ بنا رکھا ہے۔
عینی شاہدین نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ مسلح فوجی دستوں کے ساتھ آنے والی بلڈوزرز نے کوئی رعایت نہ برتی۔ مظلوم دیہاتیوں کے سادہ خیمے اور کچے مکانات منٹوں میں ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے۔
اعداد و شمار اس مسلسل ظلم کی شہادت دے رہے ہیں۔ سنہ2024ء میں عراقیب کو 11 مرتبہ، سنہ2023ء میں 11 مرتبہ، سنہ2022ء میں 15 مرتبہ اور سنہ2021ء میں 14 مرتبہ گرایا گیا۔ یہ تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ قابض اسرائیلی انتظامیہ دانستہ طور پر فلسطینی باسیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر زمین سے بےدخل کرنا چاہتی ہے۔
عراقیب کو پہلی مرتبہ 27 جولائی سنہ2010ء کو مسمار کیا گیا تھا، جب قابض ریاست نے اسے نشانِ عبرت بنانے کی مہم شروع کی۔ گزشتہ بار یہ گاؤں 2 جولائی سنہ2025ء کو گرایا گیا تھا۔
اس سب کے پیچھے ایک ہی نام نہاد دلیل ہے: “غیر قانونی تعمیرات”۔ مگر یہ بات دنیا جان چکی ہے کہ یہ صرف ایک بہانہ ہے تاکہ عرب فلسطینی علاقوں سے مقامی آبادی کو زبردستی نکال کر زمین خالی کی جا سکے۔
فلسطینی شہریوں کی تجارتی دکانیں، رہائشی مکانات اور صنعتی ورکشاپیں مسلسل انہی الزامات کے تحت گرائی جا رہی ہیں۔ اصل مقصد ان کی کمر توڑنا اور صحرائے نقب جیسے علاقوں کو فلسطینیوں سے خالی کرانا ہے۔
اس ظلم کا شکار ہونے والے خاندان اب ایک بار پھر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے پاس نہ خیمے بچے ہیں، نہ چھتیں، اور نہ ہی سایہ۔ ان کے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو صرف اس لیے سزا دی جا رہی ہے کہ وہ اپنی زمینوں پر جینا چاہتے ہیں۔