بیروت (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے رہ نما اسامہ حمدان نےزور دے کر کہا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے شمالی غزہ کی پٹی میں کمال عدوان ہسپتال کو نشانہ بنانا “جرنیلوں کے پلان” کے نام سے مشہور بدنام زمانہ منصوبے کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمال عدوان ہسپتال شمالی غزہ میں فلسطینی مزاحمت، استقامت اورغاصب صہیونی دشمن کے جبر کی علامت ہے۔
حمدان نے کہاکہ “ہم زور دیتے ہیں کہ کمال عدوان ہسپتال میں کوئی مسلح شخص موجود نہیں ہے”۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ کمال عدوان ہسپتال اور شمالی غزہ 75 دنوں سے امریکیوں کی مدد سے جاری مظالم اور قتل عام کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب حمدان نے کہا کہ “اسرائیل” ہی غزہ میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے اور جنگ بندی میں رکاوٹ ہے۔ قابض حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو قیدیوں کو قتل کر کے ان کے کیس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ “قابض فوج نے اب تک مکمل جنگ بندی اور غزہ سے انخلاء سے انکار کیا ہے۔ ہم نے ایک ایسا اقدام پیش کیا جس میں مکمل جنگ بندی اور قیدیوں کا مکمل تبادلے کا منصوبہ شامل تھا، لیکن اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ “حماس” نے پہلے غزہ سے انخلاء کے لیے بتدریج ٹائم لائن پر اتفاق کیا تھا، لیکن “اسرائیل” نے اسے قبول نہیں کیا۔
اسرائیلی قابض فوج میں ریٹائرڈ جرنیلوں کے ایک گروپ کی طرف سے تجویز کردہ جرنیلوں کے منصوبے میں شمالی غزہ کی پٹی کی پوری آبادی کو بے گھر کرنے، علاقے کو بند فوجی زون قرار دینے سے اور غزہ کو مکمل طور پر اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں دینے پر زور دیا گیا ہے۔
جمعہ کی صبح قابض فوج نے کمال عدوان ہسپتال پر دھاوا بول کر طبی عملے بشمول خواتین اور مردوں کے علاوہ ہسپتال کے قریب رہنے والے مریضوں اور رہائشیوں کو باہر نکالا اور سب کو الفاخورہ سکول منتقل ہونے پر مجبور کیا جہاں انہیں حراست میں لے لیا گیا۔
وزارت صحت نے کہا کہ قابض فوج نے کمال عدوان ہسپتال میں آپریشن اور سرجری کے شعبہ جات، لیبارٹری، مینٹیننس اور ایمبولینس یونٹ کو جلا دیا۔