ابو صفیہ نے وضاحت کی کہ غزہ میں صحت کا نظام انتہائی سخت حالات میں کام کر رہا ہے۔ طبی سامان کی کمی اور اسرائیل کی جانب سے جراحی کے طبی وفد کو ہسپتال میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے اور وہ زخمیوں کو بچانے کے قابل نہیں ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اسرائیلی فوج نے سوموار کے روز کمال عدوان ہسپتال پر بمباری کی جب وہ انتہائی نگہداشت کے کمرے میں ایک زخمی شخص کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہسپتال میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر نے ہسپتال کے اطراف میں واقع اس کے گھر پر اسرائیلی فوج کی بمباری کے بعد اپنے خاندان کے 17 افراد کو کھو دیا، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین تھے۔ ایک اور ڈاکٹر نے اسرائیلی بمباری میں اپنے خاندان کے 19 افراد کو کھو دیا۔ ان لوگوں کو اس وقت شہید کیا گیا جب ڈاکٹر ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہا تھا۔
ابو صفیہ نے نشاندہی کی کہ ہسپتال میں غذائی قلت کے بہت سے کیسز آنے لگے ہیں۔ خاص طور پر بچوں اور بوڑھوں میں غذائی قلت کی شرح بڑھ رہی ہے۔ شمالی غزہ میں خوراک اور پانی کی کمی کی پیدا ہوچکی ہے۔
دوسری طرف انادولو ایجنسی کے نامہ نگار نے اطلاع دی ہے کہ قابض فوج نے ہسپتال کی تیسری منزل پر دوبارہ بمباری کی، جو اس سے قبل بھی کئی بار اسرائیلی بمباری اور نشانہ بن چکے ہیں۔