غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) ایک دکھی ماں سناء الجرابعہ لرزتی آواز، زرد چہرہ اور بوجھل آنکھوں کے ساتھ بتاتی ہیں کہ ان کے جگر گوشے عبد الرحیم الجرابعہ کی جسے ایک امریکی فوجی نے “امیر” کے نام سے پکارا واحد نشانی اب صرف تصاویر رہ گئی ہیں۔ وہ بچہ جو ایک تھیلا آٹے کے لیے نکلا تھا، مگر پلٹ کر واپس نہ آیا۔ نہ لاش ملی، نہ کوئی نشان۔
ننگے پاؤں، بھوکا پیاسا، جسم پر کپڑا بھی بمشکل تھا، مگر پھر بھی عبد الرحیم نے 12 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ یہ 28 مئی سنہ2023ء کا دن تھا۔ وہ رفح کے شمال میں واقع امدادی مرکز تک پہنچا تاکہ اپنے اور اپنے بہن بھائیوں کے لیے کچھ کھانے کو لا سکے۔
یہ صرف ایک ماں کی درد بھری کہانی نہیں بلکہ وہی منظر ہے جو ایک سابق امریکی فوجی انٹونیو اگیلار نے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اگیلار “غزہ فاؤنڈیشن” کے لیے کام کر چکاہےاور وہ عبدالرحیم کی شہادت کے دلخراش واقعے کا چشم دید گواہ ہے۔
امریکی فوجی کی گواہی
انٹونیو اگیلار جس نے اس بچے کو “امیر” کا نام دیا کہتا ہےکہ”امیر ننگے پاؤں، لاغر جسم لیے 12 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے کھانے کی تلاش میں آیا۔ کئی گھنٹوں تک قطار میں کھڑا رہا، آخرکار اسے زمین پر گرے کچھ چاول اور دال ملی”۔
اگیلار نے بی بی سی پر دی گئی اپنی گواہی میں کہا کہ”جب امیر نے وہ تھوڑا سا کھانا حاصل کیا، تو میرے پاس آیا، اپنی چند اشیاء زمین پر رکھیں، اپنے نازک ہاتھوں سے میرا چہرہ تھاما، ہاتھ چومے اور انگریزی میں کہا: تھینک یو”۔
“لیکن چند لمحوں بعد جیسے ہی وہ دوسرے شہریوں کے ساتھ واپس جانے لگا تو قابض اسرائیلی فوج نے ہجوم پر فائرنگ اور گیس کے گولے برسا دیے۔ امیر کو گولی لگی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ معصوم، بے قصور، نہتے”۔
صہیونی غداری اور درندگی
اگیلار نے لرزتے لہجے میں مزید کہاکہ”اس دن میں نے ہزاروں شہریوں کو دیکھا جو صرف بھوک کے مارے آئے تھے۔ بچے خالی آٹے کے تھیلوں پر لڑتے، خاندان ریت پر بیٹھے۔ امیر ان سب میں الگ تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عمر چھپی تھی، جیسے وہ برسوں کا دکھ سمیٹے ہو”۔
“اس دن موت عام تھی، مگر تیزی سے آ رہی تھی۔ امیر کی شہادت نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا”۔
قابض اسرائیل کی جنگی جرائم
سابق امریکی فوجی نے اعتراف کیا کہ”میں نے اسرائیلی فوجیوں کو براہ راست نہتے شہریوں پر گولیاں چلاتے دیکھا۔ ایک مرکاوا ٹینک کو شہریوں کے ہجوم پر توپ کے گولے داغتے دیکھا۔ گاڑیوں میں موجود عام شہریوں کو نشانہ بناتے دیکھا”۔
“میں نے ان کے فوجیوں کو مارٹر گولے داغتے دیکھا۔ بحیثیت ایک تربیت یافتہ فوجی کے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب غیر تربیت یافتہ، اناڑی اور غیر انسانی کارروائیاں تھیں”۔
اگیلار نے کہا کہ”میرے کیریئر میں میں نے کبھی ایسی بے رحمانہ طاقت کا استعمال نہیں دیکھا۔ نہتے بھوکے عوام پر توپ، مارٹر، ٹینک کا حملہ۔ یہ سب جنگی جرائم ہیں۔ میں دنیا کے مختلف خطوں میں تعینات رہا ہوں، مگر ایسا منظر صرف غزہ میں دیکھا”۔
ماں کا انتظار، نیم مردہ بچوں کے درمیان
سناء الجرابعہ وہ ماں جو ہر روز اپنے لخت جگر کی تلاش میں ہسپتالوں اور انسانی اداروں کے چکر کاٹتی ہے۔اس کے خیمے میں بچے آدھے زندہ، بھوک سے نڈھال پڑے ہیں۔ ماں دن بھر کسی معجزے کی منتظر ہے۔
وہ نہیں جانتی اس کا عبد الرحیم ابھی بھی زندہ ہے اور کہیں بھوکاپڑا ہوگا۔یا کسی ایسی جنت میں پہنچ چکا ہے، جہاں نہ بھوک ہے نہ ننگ۔