Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

سموٹریچ کی غزہ پر دوبارہ قبضے کی دھمکی، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی کھلی سازش:حماس

غزہ ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے قابض اسرائیلی حکومت کے وزیر خزانہ بزلئیل سموٹریچ کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے، جس میں اس نے غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے اور وہاں دوبارہ یہودی آبادکاری کا منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ حماس نے کہا ہے کہ یہ بیان فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی اور جبری ہجرت کی واضح دھمکی ہے۔

اپنےاخباری بیان میں حماس نے کہا کہ سموٹریچ کے یہ ریمارکس قابض حکومت کی سامراجی اور نسل پرستانہ سوچ کا کھلا اظہار ہیں جو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سراسر توہین ہے۔

حماس نے مزید کہا کہ سموٹریچ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مغربی کنارے میں قابض اسرائیل نے آبادکاری کے عمل کو تیز کر کے فلسطینی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ بڑھانے کے لیے ’کنیسٹ‘ میں قوانین کی منظوری کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

حماس نے خبردار کیا کہ یہ خطرناک اسرائیلی جارحیت، چاہے غزہ میں ہو یا مغربی کنارے میں، فلسطینی عوام کی سرزمین، ان کے حقوق اور اسلامی و عیسائی مقدسات کے دفاع کے لیے جائز مزاحمت کے تمام طریقوں سے جواب دی جائے گی۔

تحریک حماس نے عرب ممالک، عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے قانونی اور اخلاقی فرائض ادا کرتے ہوئے قابض اسرائیل کی تباہ کن پالیسیوں کو روکے، جو نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پورے خطے کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہی ہیں۔

حماس نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیل کے ان رہنماؤں کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لائے، جن میں سموٹریچ اور ایتمار بن گویر شامل ہیں، جو کھلے عام نہتے فلسطینی شہریوں کے قتل اور ان کی جبری بے دخلی پر اکسارہے ہیں۔

عبرانی اخبار ’ہآرٹز‘ نے پیر کی شام خبر دی کہ قابض اسرائیل کی حکومت حماس کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کے لیے چند دن دے گی، اور اگر ایسا نہ ہوا تو غزہ کی زمینیں باقاعدہ طور پر ضم کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔

اخبار کے مطابق یہ منصوبہ بنجمن نیتن یاھو کی منظوری سے کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا جب نیتن یاھو نے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود غزہ میں انسانی امداد بڑھانے کی منظوری دی، جس کی مخالفت سموٹریچ کی سربراہی میں صہیونی مذہبی جماعت کر رہی تھی۔

منصوبے کے تحت پہلے ’بفر زون‘ کی حدود میں آنے والے علاقے ضم کیے جائیں گے، اس کے بعد شمالی غزہ میں ان علاقوں کو بھی شامل کیا جائے گا جو صہیونی بستیوں ’سدیرت‘ اور ’عسقلان‘ کے قریب ہیں۔ نیتن یاھو نے اپنی کابینہ کے بعض وزراء کو بتایا کہ یہ قدم امریکی صدر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منظوری سے ممکن ہوا ہے۔

اخبار نے نام ظاہر نہ کرنے والے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ سموٹریچ نے حالیہ دنوں میں نیتن یاھو سے کہا ہے کہ وہ قابض حکومت کے فیصلوں کو ان کے عملی اطلاق کے بعد ہی پرکھے گا۔ اگر زمینوں پر قبضہ شروع ہو گیا تو وہ حکومت کا حصہ بنا رہے گا۔

سموٹریچ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ قابض فوج کے سربراہ ایال زامیر نے اسے بتایا ہے کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر شمالی غزہ کو قابض اسرائیل میں شامل کرنا ضروری ہے۔

سموٹریچ نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ اس نے امداد میں اضافے پر بظاہر خاموشی اس لیے اختیار کی کہ وہ ایک خفیہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، جس پر بات چیت فی الحال مناسب نہیں۔ اس نے کہا کہ ’’فیصلہ جلد سامنے آئے گا۔ اصل ہدف حماس کو کچلنا ہے، اور اسی کی بنیاد پر ہم اپنی پالیسی طے کریں گے‘‘۔

قابض اسرائیل کی طرف سے بار بار دی جانے والی یہ دھمکیاں اور زمینوں پر قبضے کی سازشیں فلسطینی قوم کی مکمل جبری بے دخلی کے منصوبے کی غماز ہیں، جس کے خلاف خاموشی جرم کے مترادف ہو گی۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan