غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ میں قابض اسرائیل کی طرف سے جاری درندگی اور اجتماعی نسل کشی آج اپنے 694ویں دن میں داخل ہو گئی ہے۔ اس پوری مدت میں قابض فوج نے فضائی اور زمینی بمباری کے ذریعے محصور اور بھوکے عوام کو مسلسل نشانہ بنایا، بچوں اور عورتوں کو اندھا دھند قتل کیا اور بے گھر شہریوں کو دانستہ طور پر بھوک اور بیماریوں کے حوالے کر دیا۔ اس درندگی کو امریکہ کی کھلی سیاسی و عسکری پشت پناہی حاصل ہے جبکہ عالمی برادری کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی اس ظلم میں شریکِ جرم ہے۔
تازہ ترین صورتحال
نامہ نگاروں کے مطابق گزشتہ شب اور آج صبح قابض اسرائیل نے درجنوں فضائی و زمینی حملے کیے جن میں کئی فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔
غزہ کے ہسپتالوں کے ذرائع نے بتایا کہ ہفتے کی صبح سے درجنوں شہری قابض فوج کی بمباری اور گولیوں کا نشانہ بنے۔ ڈرونز نے شیخ رضوان محلے کی تیسری سڑک کو براہِ راست نشانہ بنایا۔
جبالیا النزلہ میں قابض فوج نے کئی رہائشی مکانات دھماکوں سے اڑا دیے۔ خان یونس کے مغربی علاقے اصداء میں بے گھر فلسطینیوں کے خیموں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے ایک شہری شدید زخمی ہوا۔ اسی علاقے میں قابض فوج نے دھماکہ خیز روبوٹ کے ذریعے کئی گھروں کو تباہ کیا۔
غزہ شہر میں قابض اسرائیل کی بمباری سے نوجوان یونس الخالدی شہید ہو گئے۔ الشوا و حصری ٹاور کے ایک رہائشی اپارٹمنٹ پر حملے میں کم از کم ایک شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔
الکرامہ محلے میں ایک اپارٹمنٹ پر بمباری کے نتیجے میں ایک ماں اور اس کا بچہ شہید ہوگئے۔
النصیرات کیمپ میں الحافی خاندان کے گھر پر حملے میں پانچ فلسطینی شہید اور کئی زخمی و لاپتہ ہوئے۔ شہداء میں براء الحافی، عبد اللہ فاید، ان کی اہلیہ شیماء الحافی اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
نسل کشی اور اس کے ہولناک اعداد و شمار
وزارتِ صحت کے مطابق قابض اسرائیل کی اس درندگی میں اب تک 63 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 59 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ دس ہزار سے زیادہ لاپتہ ہیں۔ دو ملین سے زیادہ فلسطینی سخت ترین محاصرے، قحط اور جبری نقل مکانی کے حالات میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔
بچوں اور عورتوں پر سب سے زیادہ ظلم ڈھایا گیا۔ اب تک 19 ہزار بچے شہید ہوئے جن میں سے 18 ہزار کے جسدِ خاکی ہسپتالوں میں پہنچے۔ شہید خواتین کی تعداد بھی 14 ہزار 500 سے زائد ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قابض اسرائیل نے سب سے پہلے کمزور طبقات کو نشانہ بنایا۔
18 مارچ 2025ء کو فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد سے ہی 11 ہزار 178 فلسطینی شہید اور 47 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ 27 مئی کے بعد جب قابض اسرائیل نے امدادی مراکز کو ’’قتل گاہ‘‘ میں بدل دیا تو مزید 2203 فلسطینی شہید ہوئے اور 16 ہزار سے زیادہ زخمی۔
قابض اسرائیل نے نام نہاد ’’غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن‘‘ کے ذریعے امداد کی آڑ میں قتل و بربادی کی نئی سازش رچائی جسے اقوام متحدہ نے بھی مسترد کیا۔
بھوک اور قحط کے باعث اب تک 322 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 121 بچے شامل ہیں۔
مزید یہ کہ قابض اسرائیل نے 1590 طبی اہلکار، 123 شہری دفاع کے کارکن، 245 صحافی اور 754 پولیس و امدادی عملے کو براہِ راست نشانہ بنا کر شہید کیا۔
قتل عام اور تباہی کا حجم
اب تک 15 ہزار سے زیادہ اجتماعی قتل عام کی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ 14 ہزار سے زیادہ خاندان صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے جن میں 2500 خاندان مکمل طور پر شہید ہو کر شہری ریکارڈ سے غائب ہو گئے۔
سرکاری و عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق قابض اسرائیل نے غزہ کی 88 فیصد سے زیادہ عمارتیں تباہ کر دی ہیں جس سے 62 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ قابض فوج غزہ کی 77 فیصد زمین پر قبضہ اور جلاؤ گھیراؤ کر کے اسے اجاڑ چکی ہے۔
149 تعلیمی ادارے مکمل طور پر اور 369 جزوی طور پر تباہ ہوئے۔ 828 مساجد کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا جبکہ 167 مساجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ 19 قبرستان بھی صہیونی بمباری کی زد میں آئے۔
غزہ کی سرزمین ایک بار پھر گواہی دے رہی ہے کہ قابض اسرائیل کی وحشت اور نسل کشی تاریخ کا بدترین باب ہے، جس پر خاموش رہنے والے عالمی ادارے بھی اس جرم میں شریک ہیں۔