نیویارک – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (انروا) کے کمشنر جنرل فلیپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں قحط اور انسانی بحران دراصل قابض اسرائیل کی ایک منظم سازش ہے، جس کا مقصد اقوام متحدہ کے اداروں کو ختم کر کے ایک سیاسی مفادات پر مبنی متبادل نظام، یعنی نام نہاد “غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن” کو مسلط کرنا ہے۔
لازارینی نے ان خیالات کا اظہار سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر جاری ایک بیان میں کیا، جس میں انہوں نے غزہ کے خلاف جاری قابض اسرائیلی بھوک کی جنگ پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے پانچ ماہ سے قابض اسرائیل نے انروا کو غزہ میں کسی بھی قسم کی انسانی امداد پہنچانے سے روک رکھا ہے، جس کے باعث صورتحال نہایت تشویشناک ہو چکی ہے۔
انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ “انروا کو کمزور اور بے اثر بنانا دراصل فلسطینی عوام کو اجتماعی طور پر سزا دینے کا ایک دانستہ طریقہ ہے۔ یہ الزام کہ انروا کی امداد مسلح گروہوں تک پہنچتی ہے، ایک محض بہانہ ہے جس کا مقصد غزہ کے باسیوں کو ان کے جینے کے حق سے محروم کرنا ہے”۔
تحقیقی رپورٹس اور زمینی حقائق اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ غزہ میں بھوک روز بروز شدت اختیار کر رہی ہے۔ بین الاقوامی تنظیمیں مکمل طور پر بے بس ہیں، وہ نہ بچوں کے لیے غذائی سپلیمنٹ پہنچا پا رہی ہیں، نہ ادویات، نہ خوراک۔ قابض اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ رکاوٹوں نے ہزاروں فلسطینیوں کی جان خطرے میں ڈال دی ہے۔
ہفتے کے روز فلسطین کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ سات اکتوبر سنہ2023ء سے جاری اسرائیلی قحط کی پالیسی کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 169 ہو چکی ہے، جن میں 93 معصوم بچے شامل ہیں۔ صرف پچھلے 24 گھنٹوں میں مزید 7 افراد قحط کے باعث دم توڑ چکے ہیں۔
قابض اسرائیل نے امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ 27 مئی کو ایک نئی امدادی اسکیم نافذ کی تھی، جس کے تحت غزہ کے جنوبی اور وسطی علاقوں میں صرف 4 مقامات پر امداد تقسیم کی جا رہی ہے، وہ بھی نام نہاد “غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن” کے ذریعے۔ یہ نظام مقامی فلسطینی انتظام کو نظرانداز کر کے قابض کی منشا کے مطابق چلایا جا رہا ہے۔
وزارت صحت کے مطابق، اس نئی امدادی اسکیم کے آغاز سے اب تک قابض اسرائیل کی فائرنگ سے 1330 فلسطینی شہید اور 8818 سے زائد شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ تمام حملے امدادی مراکز کے اطراف میں ہوئے، جہاں لوگ محض ایک لقمہ کی امید لیے جمع ہوتے ہیں۔
سات اکتوبر سنہ2023ء سے قابض اسرائیل نے امریکہ کی پشت پناہی میں غزہ میں ایسی نسل کشی کا آغاز کیا ہے جس میں نہ صرف قتل عام کیا جا رہا ہے بلکہ بھوک، تباہی اور جبری نقل مکانی کے ذریعے فلسطینیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی سازش جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے اعلانات، عالمی عدالت انصاف کے احکامات سب کو نظر انداز کر کے فلسطینیوں کے خلاف کھلی درندگی روا رکھی جا رہی ہے۔
اب تک اس نسل کشی کے نتیجے میں 2 لاکھ 8 ہزار فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ 9 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں۔ سینکڑوں ہزار فلسطینی اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں اور غزہ مکمل طور پر ایک بھوکے قیدی کی صورت اختیار کر چکا ہے۔