غزہ —(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) یورومیڈیٹرین ہیومن رائٹس مانیٹر نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کے جاری منصوبے کے تحت جان بوجھ کر تقریباً 97 فیصد مویشوں کو براہ راست بمباری اور منظم فاقہ کشی کے ذریعے تباہ کر دیا ہے، حتیٰ کہ وہ جانور بھی ہلاک کر دیے گئے جو ایندھن کی قلت اور آمد و رفت کے ٹھپ ہونے کے بعد واحد سفری ذریعہ بنے ہوئے تھے۔
ہفتے کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں ادارے نے واضح کیا کہ غزہ میں جانوروں کی وسیع پیمانے پر ہلاکتیں دراصل ہزاروں زرعی دونم اراضی کی بلڈوزنگ کے ساتھ منسلک ہیں، جو قابض ریاست کی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ اس پالیسی کا ہدف ہے کہ فلسطینیوں کو خوراک سے محروم کر کے ان پر فاقہ کشی مسلط کی جائے اور انہیں ایسی ناقابل برداشت جسمانی اور نفسیاتی اذیت دی جائے جو کہ اجتماعی نسل کشی کے بنیادی ستونوں میں شامل ہے۔
یورومیڈیٹرین مانیٹر کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیل کی پالیسیاں باقاعدہ ایک منظم نسل کشی کا نمونہ ہیں، جس میں ایسی زندگی مسلط کی جا رہی ہے جس میں بقاء ممکن نہیں۔ خوراک، زراعت اور حیوانی پیداوار کو جان بوجھ کر ختم کرنا، وسیع پیمانے پر قتل عام، غیرقانونی محاصرہ، اور غذائی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ، یہ سب نسل کشی کے واضح شواہد ہیں۔ یہ تمام جرائم بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں، اور فلسطینیوں کی اجتماعی حیثیت کو ختم کرنے کی نیت کا واضح اظہار ہیں۔
غزہ جہاں اب مویشی نہیں بچے
مانیٹرنگ ادارے کے مطابق غزہ پر قابض اسرائیل کی نسل کشی کا آغاز اکتوبر سنہ2023ء میں ہوا، جب یہاں تقریباً 6500 مرغی فارم کام کر رہے تھے، جو ماہانہ تین ملین مرغیاں مقامی بازار میں فراہم کرتے تھے۔ مگر آج، 666 دن بعد، 93 فیصد سے زائد مرغی فارم مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور باقی ماندہ فارم بھی مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔
ادارے کی فیلڈ ٹیم نے ایسی تصاویر اور شواہد اکٹھے کیے ہیں جن میں ہزاروں پرندوں کو مردہ حالت میں دکھایا گیا ہے۔ کچھ براہ راست بمباری سے ہلاک ہوئے اور کچھ خوراک اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے دم توڑ گئے۔ سفید گوشت کے اس بڑے پیمانے پر صفائے کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں نسل کشی سے پہلے تقریباً 15 ہزار گائیں موجود تھیں، جن میں سے 97 فیصد سے زائد یا تو بمباری سے ہلاک ہو گئیں یا پھر بھوک سے مر گئیں۔ ابتدائی مہینوں میں متبادل نہ ہونے کی وجہ سے کچھ گائیں ذبح کی گئیں۔
جہاں تک بکریوں اور بھیڑوں کا تعلق ہے تو غزہ میں نسل کشی سے پہلے تقریباً 60 ہزار بھیڑیں اور 10 ہزار بکریاں موجود تھیں۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 97 فیصد سے زائد ختم ہو چکی ہیں۔ انہیں یا تو ہلاک کر دیا گیا یا وہ بدترین حالات میں خوراک اور پانی کے بغیر مر گئیں۔
یورومیڈیٹرین مانیٹر کے مطابق نسل کشی سے پہلے غزہ میں تقریباً 20 ہزار گدھے، متعدد گھوڑے اور خچر موجود تھے جو آمد و رفت کے واحد ذرائع تھے۔ سنہ2024ء کے اگست تک ان میں سے 43 فیصد ختم ہو چکے تھے، اور اب صرف 6 فیصد کے قریب باقی رہ گئے ہیں۔ یہ شعبہ تقریباً مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
قابض اسرائیل کا ڈھونگ اور لوٹ مار
مانیٹر نے انکشاف کیا کہ جب ایندھن ختم ہو گیا، سڑکیں تباہ ہو گئیں اور ٹرانسپورٹ بند ہو گئی تو لوگ گدھوں، خچروں اور گھوڑوں پر انحصار کرنے لگے ۔ یہ جانور ہی اب مریضوں، شہداء، بچوں، پانی اور خوراک کی ترسیل کے آخری وسیلے بن چکے تھے۔ مگر زیادہ تر جانور بمباری اور فاقہ کشی کا شکار ہو گئے اور جو بچے وہ بھی کمزوری کے باعث مکمل مفلوج ہو چکے ہیں۔
ادارے نے اسرائیلی چینل ’’کان‘‘ کی اس خبر کو سختی سے مسترد کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج نے سینکڑوں گدھوں کو ’’سخت حالات سے بچانے‘‘ کے لیے غزہ سے نکال کر ایک اسرائیلی فارم، پھر فرانس اور بلجیم منتقل کیا۔ یورومیڈیٹرین مانیٹر کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک دھوکہ ہے، ایک پراپیگنڈہ، تاکہ نسل کشی کی اصل تصویر کو مسخ کیا جا سکے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم چوری ہے ۔ ان جانوروں کا قبضہ، جو غزہ کے عوام کے لیے بقاء کا آخری ذریعہ تھے دراصل زندگی کے وسائل کو لوٹنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔
ادارے کا کہنا تھا کہ انسانی ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر یہ ڈرامہ کرنا، جب کہ غزہ میں 22 ماہ سے ہر شکل کی زندگی کا صفایا ہو رہا ہے، عالمی ضمیر کے ساتھ سنگین دھوکہ ہے۔
غزہ میں حیاتیاتی تباہی اور بقا کا بحران
ادارے نے خبردار کیا کہ لائی اسٹاک کا صفایا فاقہ کشی کو ایک پالیسی کے طور پر نافذ کرنے کی مجرمانہ مہم کا حصہ ہے۔ مسلسل فوجی حملوں نے صحت عامہ، ماحولیات، زرعی زمینوں، پانی، مٹی اور ہوا کے معیار کو تباہ کر دیا ہے۔ ماحولیات کا یہ بگاڑ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ تباہی ایک لمحے میں نہیں ہوئی بلکہ وقت کے ساتھ اثرات جمع ہو رہے ہیں اور اب ایسی خطرناک حد کو چھو رہے ہیں جو اچانک اموات، قحط اور غذائی قلت میں ہولناک اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھوک اور غذائی قلت سے روزانہ اموات کی اطلاع آ رہی ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ اگر محاصرہ ختم نہ ہوا تو انسانیت ایک ناقابل واپسی تباہی کی طرف جا رہی ہے۔
خوراک اور پانی تک رسائی ایک ناقابل تنسیخ انسانی حق
یورومیڈیٹرین مانیٹر نے اس امر پر زور دیا کہ خوراک اور پانی تک رسائی ایک بنیادی انسانی حق ہے، جسے کوئی طاقت سلب نہیں کر سکتی۔ اس حق کا حصول تبھی ممکن ہے جب غزہ کی نسل کشی بند ہو، قابض اسرائیل کا محاصرہ فوری ختم کیا جائے اور فلسطینیوں کو جینے کا حق دیا جائے۔
ادارے نے عالمی برادری، اقوام متحدہ، علاقائی تنظیموں اور تمام ممالک سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیل پر تمام ممکنہ دباؤ ڈالیں، تاکہ نسل کشی پر مبنی فاقہ کشی بند ہو، غیرقانونی محاصرہ ختم کیا جائے اور انسانی امداد کی فراہمی بحال ہو۔ اس کے بغیر قحط جیسے خطرناک حالات سے بچنا ممکن نہیں۔
انسانی راستے، پابندیاں اور عالمی عدل کی ضرورت
ادارے نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں فوری طور پر محفوظ انسانی راہداری قائم کی جائے تاکہ خوراک، ادویات اور ایندھن پورے غزہ میں پہنچ سکیں۔ بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی میں اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے، اور زراعت و حیوانی پیداوار کی بحالی فوری شروع کی جائے۔
ادارے نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ نہ صرف اسرائیل پر فوری پابندیاں عائد کرے بلکہ قابض اسرائیل کے سیاسی و عسکری ذمہ داروں کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں پر عمل درآمد کرائے، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم اور سابق وزیر دفاع کے خلاف جاری گرفتاری کے وارنٹ پر فوری عمل کیا جائے۔
یورومیڈیٹرین مانیٹر نے زور دیا کہ اسرائیل پر مکمل ہتھیاروں کی پابندی عائد کی جائے، دوہری استعمال کی اشیاء، سافٹ ویئر، مالی معاونت، سیاسی یا فوجی تعاون بند کیا جائے، اور اسرائیلی دفاعی کمپنیوں کی عالمی منڈیوں سے بے دخلی کے اقدامات کیے جائیں۔