غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ میں وزارت صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منیر البرش نےکہا ہےکہ شہری دفاع کے اہلکاروں نے شمالی غزہ کی پٹی کی سڑکوں سے 100 سے زائد شہداء کی لاشیں اکٹھی کی ہیں جن میں سے زیادہ تر نامعلوم افراد کی باقیات ہیں۔
البراش نے منگل کو میڈیا کے بیانات میں کہا کہ شمالی غزہ کی پٹی میں اب بھی دس ہزار سے زیادہ شہداء مکانات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
غزہ میں صحت کے ڈائریکٹر نے عندیہ دیا کہ صحت کی دیکھ بھال بتدریج بحال کی جائے گی، جس کا آغاز العودہ ہسپتال سے ہوگا۔ اس کے بعد انڈونیشیائی ہسپتال اور پھر کمال عدوان ہسپتال بحال کیے جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تباہ شدہ ہسپتالوں کی مرمت کے لیے بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کی مدد سے حالات کی پیچیدگیوں کے مطابق کام کیا جائے گا، کیونکہ قابض فوج نے غزہ کی پٹی پر اپنی جارحیت کے دوران ہسپتالوں، آکسیجن اسٹیشنز اور ایندھن کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کردیا تھا۔
البرش نے کہا کہ شمالی غزہ کی پٹی کو نشانہ بنانے والی جارحیت میں اب تک 4000 سے زیادہ فلسطینی شہید اور لاپتہ ہوئے اور اس تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ قابض فوج نے جارحیت کے دوران زخمیوں کو نکالنے اور نشانہ بنائے گئے علاقوں سے شہداء کو نکالنے کی کوشش کرنے والی ایمبولینسوں پر فائرنگ کی جس کی وجہ سے شہداء کی لاشیں 90 دن سے زائد سڑکوں پر پڑی رہیں ۔
دوسری جانب فلسطینی شہری دفاع کے ترجمان محمود بسال نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی کے شمالی علاقوں میں پھنسے درجنوں افراد 15 ماہ تک جاری رہنے والی جارحیت کے دوران اپنے تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دب کر شہید ہو گئے۔ کیونکہ ریسکیو ٹیمیں ان کی تکلیف دہ کالوں کا جواب دینے سے قاصر تھیں۔ ان کے پاس ان تک پہنچنے کے لیے وسائل گاڑیاں اور ملبہ ہٹانےکے لیے بھاری آلات نہیں تھے۔
ایک سابقہ بیان میں بسال نے وضاحت کی تھی قابض نے جان بوجھ کر شمالی غزہ کی پٹی میں ان کے رہائشیوں کے ساتھ آباد مکانات کو نشانہ بنایا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امدادی ٹیموں کو شمالی غزہ کی پٹی میں اپنے گھروں کے ملبے تلے پھنسے زخمی شہریوں کی طرف سے روزانہ پریشانی کی کالیں موصول ہو رہی تھیں لیکن سول ڈیفنس کا عملہ ان تک پہنچنے سے قاصر تھا، مگر وہ ان کی مدد نہیں کرسکے جس کی وجہ سے بڑی تعدادمیں لوگ شہید ہوگئے۔