ماسکو (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائی بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک تباہی ہے جو انسانی ہمدردی کے اصولوں اور بین الاقوامی اصولوں سے متصادم ہے”۔
لاوروف نے پریس بیانات میں اس بات پر زور دیا کہ “اسرائیلی فوجی آپریشن نے اجتماعی سزا کا کردار اختیار کر لیا ہے جو ہم زمینی اعداد و شمار سے دیکھتے ہیں، وہ المناک اور خوناک ہی”۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے دوران 45,000 سے زیادہ شہریوں کا قتل عام بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور بلا شبہ جنگی جرم ہے۔
گذشتہ دنوں صدر ولادیمیر پوتین نے غزہ کی پٹی میں خواتین، بچوں اور بوڑھوں سمیت بے گناہ لوگوں کو سزا دینے سے انکار کا بار بار اعلان کیا تھا اور بار بار خونریزی اور تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
روسی صدر نے کہا تھا کہ’’روس ہمیشہ فلسطین میں جنگ بندی کے حصول کے لیے کام کرنے کے حق میں رہا ہے لیکن امریکہ ان فیصلوں میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے‘‘۔
پوتین نے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جنگ پر تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ سات اکتوبر کے واقعات پر اسرائیل کا ردعمل “جنگ سے مشابہت نہیں رکھتا، بلکہ غزہ کے لوگوں کی نسل کشی ہے”۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعرات کو ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیلی قابض فوج اکتوبر سے غزہ کی پٹی پر جاری جنگ کے فریم ورک کے اندر، فلسطینیوں کے خلاف “جان بوجھ کر” نسل کشی کے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔
ایمنسٹی نے کہا کہ اس نے “یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل اور اسرائیلی فوج نے 1948ء میں نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کے تحت ممنوعہ پانچ میں سے کم از کم تین جرائم کیے ہیں۔”
بین الاقوامی تنظیم نے وضاحت کی کہ “عام شہریوں کو قتل کرنا، سنگین جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچانا، جان بوجھ کر حالات زندگی مسلط کرنا جن کا مقصد ایک معصوم طبقے کو جسمانی طور پرختم کرنا ہے‘‘۔
عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ ” قائق اور بیانات کا کئی مہینوں تک تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے”۔