نیویارک (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ‘ اونروا’ کے سربراہ کو اسرائیلی فوج نے ایک مرتبہ پھر اتوار کے روز غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ دوسرا موقع ہے کہ اسرائیل کی طرف سے انسانی بنیادوں پر اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطینی کی امداد کے لیے قائم کیے گئے ادارے ‘اونروا’ کے سربراہ کو غزہ میں داخل ہونے سے روکا گیا ہے۔
‘اونروا ‘ فلسطیینیوں کو اور خصوصاً بے گھر فلسطینیوں اور ان کے بچوں کو مختلف شعبوں میں انسانی بنیادوں پر امداد دینے کے لیے قائم کیا گیا ادارہ ہے، جس کے کارکنوں کی تعداد 30000 ہزار ہے اور صرف غزہ کے فلسطینیوں کی مدد کے لیے اس کے 13000 کارکن تعینات ہیں۔
اتوار کے روز ‘اونروا’ کے سربراہ فلپ لازا رینی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس ‘ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں لکھا ہے کہ ‘ محض ایک ہفتے کے دوران دوسری بار ”انہوں نے مجھے غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔میں نے غزہ میں امدادی ذمہ داری انجام دینے والے اپنے کارکنوں کے ساتھ وقت گزارنے کا پروگرام بنایا تھا ، مگر مجھے غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ ‘
واضح رہے ‘اونروا ‘ چیف نے ‘ایکس ‘ پر اپنے بیان میں اسرائیل کا نام نہین لیا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا اور امریکہ میں اسرائیلی اقدامات کی مذمت کو بھی اسرائیل کی طرح ‘ یہود دشمنی ‘ قرار دیا جارہا ہے۔ شاید اسی لیے فلپ لازارینی نے اپنی پوسٹ میں اسرائیل کا نام استعمال کرنے سے گریز کیا ہے کہ ‘ یہود دشمنی’ کے الزام سے بچ جائیں۔
ایک اطلاع کے مطابق جب سے اسرائیل نے غزہ پر اپنی جاری جنگ مسلط کی ہے ‘اونروا’ چیف کو کم از کم چوتھی بار غزہ میں داخل ہونے سے روکا گیا ہے۔ ایک بار ماہ مارچ کی 17 تاریخ کو بھی روکا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے کئی اداروں کے سربراہان اور ان کے کارکنوں کو اسرائیل نے اپنے ہاں آنے کے لیے ویزے دینے سے منع کر رکھا ہے۔۔ اسرائیل کے یہ ہتھکننڈے بنیادی طور پر غزہ جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے لاکھوں فلسطینیوں کے لیے امدادی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ہیں۔
اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں بیس لاکھ سے زائد فلسطینی غزہ کی پٹی پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ بنیادی انفراسکٹرچر بشمول پانی کی ترسیل کا انطام اور خوراک کی فراہمی تک رک چکی ہے۔ بجلی اور ایندھن کی فراہمی بھی اسرائیل نے منقطع کر رکھی ہے۔ مزید یہ کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کا مسلسل محاصرہ کر رکھا ہے، اس وجہ سے عالمی انسانی ادارے غزہ میں قحط پڑنے کی نشادہی کر رہے ہیں۔ لیکن اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔
حتیٰ کے اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کو بھی اس سلسلے میں کردار ادا کرنے سے روکنے کے لیے اسرائیلی فوج کے ہتھکنڈے جاری ہیں۔ ‘اونروا ‘ کے سربراہ فلپ لازا رینی نے اتوار کے روز رفح راہداری کے قریب تر راکٹ بازی کے حملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا بھی ‘ایک ‘ پر مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل نے ‘اونروا ‘ اور دوسرے کئی اداروں کے ساتھ یہ رویہ شروع سے جاری رکھا ہوا ہے۔ تاہم ‘اونروا’ کے خلاف ماہ جنوری میں اچانک ایک الزام عاید کیا گیا کہ غزہ میں کام کرنے والے ‘ اونروا ‘ کے 13000 کارکنوں میں سے 12 پر اسرائیل کو شک ہوا ہے کہ انہوں نے سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے میں حماس کی مدد کی تھی۔
بعد ازاں اقوام متحدہ کی طرف سے کرائی گئی تحقیقات میں اسرائیلی الزام بے ثبوت ہونے کی بنیاد پرمسترد بھی کیا جاچکا ہے، تاہم ‘اونروا’ کے خلاف اسرائیلی منفی حربے آج بھی جاری ہیں۔