آخر میں پردہ انتہائی خطرناک اسٹیشنوں پرگر پڑا۔ یہ 25 ویں کنیسٹ کے انتخابات ہیں۔ الیکشن کمیشن نے حتمی سرکاری نتائج کا اعلان کیا جس میں اس بات کا اشارہ دیا گیا ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے دوران اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ سابق اور آنے والے دنوں میں فیصلہ کن وزیر اعظم بنیامین نیتن یاھو کی سربراہی انتہائی دائیں بازو کے کیمپ نے گذشتہ چار انتخابی سیشنوں میں واضح اور غیر مسبوق اکثریت حاصل کی ہے۔
انتخابی کمیشن کا کہنا ہے کہ موجودہ عبوری وزیر اعظم یائیر لپیڈ کی سربراہی میں کیمپ کے لیے صرف 51 نشستوں کے مقابلے میں کنیسٹ کی 120 نشستوں میں سے دائیں بازو کے انتہا گروپ کو 65 نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔
اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے لپیڈ نے نیتن یاھو کو شاندار کامیابی پر مبارک باد میں زیادہ دیر نہیں کی۔ اس نے نیتن یاھو کو کو فون کیا اور انہیں انتخابات میں فتح پر مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے اقتدار کی پرامن منتقلی میں ہرممکن تعاون کا بھی یقین دلایا۔
جہاں تک بنیامین نیتن یاہو جو چار بدعنوانی کے کیسز کی وجہ سے پریشان رہے ہیں نے فوراً بعد ہی اپنی فتح کے نتائج کو عملی شکل دینے کے لیے انتہائی پسند دائیں بازو کی جماعتوں کے رہ نماؤں سے رابطے شروع کردیے۔ با خبر ذریعے کا کہنا ہے کہ نومبر کے رواں مہینے کے وسط تک اسرائیل میں نئی حکومت کی تشکیل مکمل ہوجائے گی۔
انتخابی نتائج کے بارے میں بات کریں تو سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ 32 نشستوں پر کامیاب رہی۔ “یہودی ہتوورات” پارٹی کو مغربی یہودیوں (اشکنازی) اور مشرقی یہودیوں (سیفاردیم کی حمایت حاصل تھی۔ اس نے 18 نشستیں جیتیں۔ بتسلئیل سموٹریچ اور ایتمار بن غفیر کی دائیں بازو کی مذہبی انتہا پسند جماعت نے 14نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
“تبدیلی کیمپ” میں شامل جماعتوں میں “فیوچر پارٹی”کی قیادت موجودہ وزیراعظم یائرلیڈ کے پاس ہے اور اس جماعت نے 24 نشستیں حاصل کی ہیں۔ وزیر دفاع بینی گینٹز کی سربراہی میں “نیشنل کیمپ” نے 12 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ آوی گیڈور لایبرمین کی جماعت نے 6 نشستوں پر ، “یونیفائیڈ لسٹ” نے 5 اور لیبر پارٹی نے 4 سیٹیں حاصل کیں۔
جہاں تک “عرب محاذ” اور “عرب جماعت برائے تبدیلی” کی بات ہے تو ان دونوں جماعتوں نے مل کر کل پانچ نشستیں حاصل کیں۔ ان کی قیادت بالترتیب ایمن عودہ اور احمد الطیبی کرتے ہیں جو دو اہم کیمپوں کے مخالف ہیں۔ انہیں 5 نشستیں ملیں جبکہ بائیں بازو کی “میریٹز” اور ” عرب ڈیموکریٹک اسمبلی “پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے لیے ایک سیٹ بھی نہیں لے سکی۔
ایسا نہیں لگتا ہے کہ نیتن یاہو کی خواہشات کے مطابق حکومت کی تشکیل آسان ہوگی کیوں کہ بہت سے مائن فیلڈز ہیں جن کو وزیر اعظم کو ختم کرنا ہوگا تاکہ وہ طے شدہ قانونی مدت پوری کریں ہیں جو کہ چار سال ہے۔
مشہور امریکی صحافی تھامس فریڈمین نے امریکی نیو یارک تمیز اخبار کے اپنے کالم میں لکھا ہے مخلوط حکومت گر گئی ہے اور اس کی جگہ انتہائی دائیں بازو کےانتہا پسند گروپ نے لے لی۔ یہ کہ یہ ایک بُری خبر ہے یورپ اور یہاں تک کہ ریاستہائے متحدہ امریکا میں ہوسکتا ہے۔ اگر ٹرمپ واپس آجائیں اور اس کے حامی سفید فام قوم پرست دائیں بازو کے انتہا پسند حکومت پرقبضہ کرلیں۔
فریڈمین نے مزید کہا کہ جو کچھ اسرائیل میں ہورہا ہے “انتہا پسند آرتھوڈوکس رہ نماؤں ، قوم پرستوں اور نسل پرستوں کا شور مچانے والا اتحاد ہے۔” ایسے لگتا ہے کہ نیتن یاہو ایک جبری راہداری کے سامنے ہیں۔ ان کے لیے ان انتہا پسندوں کی حمایت کے بغیر اکثریتی اتحاد بنانا ناممکن ہوگا۔ یہ زیادہ خطرناک ہے کہ انہیں ان[انتہا پسند] گروپوں کو اہم نوعیت کی وزارتوں کے قلم دان بھی سونپا پڑیں گے۔ لہٰذا نیتن یاھو کے پاس ان گروپوں کو وزارتیں دے کرمطمئن کرنے کے سوا جوئی چارہ نہیں بچا۔
مقبوضہ فلسطین میں ان گروپوں کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد ہے جسے نظرانداز کرنا نیتن یاھو کے لیے ممکن نہیں رہے گا۔ ان”مذہبی صہیونی” با اثر لیڈروں میں ایتمار بن غفیرسب سے آگے ہے۔ اس کے مسلح گروہوں نے القدس کے محلوں پر حملہ کرنا بند نہیں کیا اور یہ گروپ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی سے باز نہیں آتے۔ ایتمار پرسنہ 2007ء میں ایک عدالت نے نسل پرستی پر اکسانے کے الزام میں مقدمہ قائم کیا مگرجلد ہی اسے ختم کردیا گیا۔ وہ یہودی دہشت گرد نسل پرستی کی ایک تنظیم کی حمایت کرتا ہے۔ بن غفیر داخلی سلامتی کی وزارت لینے کا خواہاں ہے اور نیتن یاھو نے انتخابی مہم کے دوران اس سے یہ وزارت دینے کا وعدہ بھی کررکھا ہے۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بن غفیر داخلی سلامتی کی وزارت حاصل کر کے انتہا پسندوں کو فلسطینیوں کے خلاف مزید متحرک کرے گا۔ فلسطینیوں سے جیلیں بھرنے کی حمایت کرنےوالا یہ شخص مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے اس کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا ایک بڑا علم بردار ہے۔
حراستی مراکز میں قید فلسطینیوں پر تشدد کا حامی بن غفیر فلسطینی قوم کے خلاف طاقت کے بہیمانہ استعمال اور فلسطینیوں کے خلاف انتہا پسند صہیونیوں کو نفرت پراکسانے میں بھی پیش پیش رہا ہے۔
بن غفیر کے قاتل ساتھی سیلئیل سموٹریچ بھی نیتن یاھو کا اتحادی ہے اور اس کا شمار بھی انتہا پسند اور فلسطینیوں کے قاتلوں میں ہوتا ہے۔ سموٹریچ نیتن یاھو کی حکومت میں وزرارت دفاع کا قلم دان لینے کا متمنی ہے۔ نیتن یاھو نے اپنے پندرہ سالہ اقتدارکے دوران وزارت دفاع کا قلم دان اپنے پاس رکھا مگراب کی بار لگتا ہے کہ انہیں یہ عہدہ اپنے اتحادیوں کو دینا پڑے گا۔ اسرائیل کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا یہ عہدہ اب سموٹریچ کی توجہ کا مرکز ہے۔ چونکہ وہ تیسری سب سے بڑی پارٹی کی قیادت کرتا ہےاور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہر ملک میں فوج لازمی ہے لیکن قابض اسرائیل کی بات کی جائے تو یہ ریاست فوج ہی نے بنائی ہے۔ اس لیے وزارت دفاع اس کے لیے اہم ہے۔
سموٹریچ جیسا کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران کہہ چکا ہے وہی کرےگا جو وہ کہتا رہاہے۔ وہ یہ کہ الیکشن جیت کرحکومت کا حصہ بننے کی صورت میں وہ غرب اردن کا باضابطہ الحاق کرے گا۔ فلسطینی عوام کو نہ صرف مغربی کنارے اور القدس بلکہ سنہ1948ء کے علاقوں سے بھی نکالنے کے لئےوہ حربے استعمال کرے گا۔ مزاحمتی کارکنوں اور مجاہدین کو سزائے موت دینے ،مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے اور مبینہ تیسرے ہیکل کی تعمیر بن غفیر کے انتخابی وعدوں میں شامل رہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہودی دہشت گردی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ فلسطینیوں کے خلاف کھلے عام نسل پرستی کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ بچوں کی پیدائش کی صورت میں یہودی ماؤں فلسطینیوں سے الگ تھلگ کرنے کی حمایت کرتا ہے۔
عبرانی اخبار “یدیعوت احرونوٹ” میں صحافی نحوم برنیع کا کہنا ہے کہ “نیتن یاہو کا خیال ہے کہ منظم جرائم پیشہ، اسمگلر اورممنوعہ اشیار کی تجارت کرنے والے مافیا کی حوصلہ افزائی کرنا اس کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اس مافیا نےسنہ 48 اراضی میں فلسطینی عوام کی نسل کشی کے لیے جنگ شروع کر رکھی ہے۔ چاقو حملوں اور فائرنگ کے واقعات میں آئے روز فلسطینی عرب شہری مارے جاتے ہیں۔ ان مافیا کے ساتھ تعاون اور کام کرنے کے لئے زرخیز زمین موجود ہے اور یہ کہ اس کام کے لیے بن غفیر کی نامزدگی مناسب ہے۔
عبرانی یونیورسٹی کے یہودی فلسفی موشے ہالبرٹل کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو ہاکس کی قیادت کررہا ہےجو اسرائیلی قوم کو انتہا پسند قومیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔اس میں اب یہودی آبادکاری سوسائٹی کے ستون بھی شامل ہیں۔ یہ ستون نہ صرف فلسطینی ریاست کے قیام کے مخالف ہیں بلکہ ہر فلسطینی کو بھی ایک ممکنہ’دہشت گرد‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس لیےاب اسرائیل انتہا پسندی کی طرف تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اس طرز عمل میں انتہا پسند یہودی “فلسطینی دشمن بیرون ملک” سے “گھر کے اندر فلسطینی دشمن” کا نظریہ اختیار کیا ہے۔ اسرائیلی فلاسفر کا کہناہے کہ بدصورت اور قبیح نظریات ریاست کو ختم کردیں گے۔ انتہا پسند عناصر اقتدار میں آکر ریاست کو واقعی ایک تاریک سرنگ میں دھکیل رہے ہیں۔
مقبوضہ فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے وہ نہ صرف حکومت یا سیاسی جماعتوں بلکہ صہیونی یہودیوں کے اندر بھی تیزی کے ساتھ انتہا پسندی کے جراثیم پیدا کررہا ہے۔
لہذا فلسطینی عوام اور ان کی بہادر اور باشعور مزاحمتی قیادت کو آج ضرورت ہے کہ وہ زمین اور مقدسات کے دلالوں کے ٹوٹتے ہوئے سیاسی نظام کوجڑ سےاکھاڑ پھینکےجو باقی ماندہ جوئے بازوں اور قمار بازوں کے ساتھ مل کر فلسطینی قوم کے خلاف صف آرا ہیں۔ فلسطینیوں کو اندرون اور بیرون ملک جہاں بھی ہیں دشمن کے خلا سیسہ پلائی دیوار بناتے ہوئے وطن عزیز کے قلعے کو مضبوط کرنا ہوگا۔ وطن کا دفاع فلسطینی قوتوں کے درمیان اتحاد یکجائی میں پوشیدہ ہے۔فلسطینی قیادت اور قوم مل کرایک ایسے مضبوط آہنی قلعے کی بنیاد رکھیں جس میں فلسطینی پناہ گزین فرزندان وطن بن کرقابض کولونیل نازی استعماری قوت کے خلاف مزاحمت کا ساتھ دیں اور پوری قوم نوآبادیاتی نظام کو جڑیں کاٹ ڈالیں۔ کیونکہ اس استعماری نظام کا مجرمانہ خونی ہدفوطن عزیز کے عوام کا وجود خون، لوہے اور آگ سے مٹانا چاہتا ہے۔
ہمیں تمام مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی سطحوں پر تمام سیاسی، میڈیا اور سفارتی گفتگو کو تبدیل کرنے اور آنے والے فوائد اور قربانیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے عوام ہر موڑ پر ثابت کرتے ہیں کہ وہ فلسطینی قلعے کے اندر دشمن اور اس کے مخبروں پر اپنی شرائط مسلط کرنے اور وطن کو بیچنے کے منصوبوں اور دشمن حکومتوں کے ساتھ ہم آہنگی اور دوستی کی پالیسیوں کی ذلت اور امن کی بھیک روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاک اور بابرکت سرزمین پربسنے والے لوگوں کی مزاحمت اور اس عظیم استقامت سے ثابت ہوتا ہے کہ نابلس، جنین،الخلیل اور تمام وطن عزیز میں فتح کے آثار منڈلا رہے ہیں۔ یہ بات عوام کو اچھی طرح معلوم ہو چکی ہے کہ قربانی کا راستہ ہمیشہ ناگزیر اور یقینی فتح کی طرف جاتا ہے اور یہ راستہ مختصر ہوتا ہے۔