مقبوضہ بیت المقدس (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) ہزاروں اسرائیلیوں نے گذشتہ رات تل ابیب اور اسرائیل کے متعدد شہروں میں مظاہروں میں شرکت کی، جس میں ’حماس‘ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے قابض حکومت کے سربراہ بنجمن نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے ان پر مذکرات کو ناکام بنانے کا ذمہ دار قرار دیا۔
عبرانی ’اخبار‘ نے کہا کہ کنیسٹ کے متعدد نمائندوں نے مظاہروں میں شرکت کی اور اسرائیلی اپوزیشن کے رہ نماؤں نے نیتن یاہو کی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ غزہ کی پٹی میں قیدیوں اور فوجیوں کی قربانیاں دے رہی ہے اور جنگ ختم نہیں کرنا چاہتی۔
ہارٹز کے مطابق تل ابیب میں غزہ میں قید اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ نے دو بڑے مظاہروں کی قیادت کی۔ انہوں نے وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے دھرنا دیا۔
اخبارنے اطلاع دی ہے کہ حیفا، ہرزیلیا، نتانیہ اور بیر سبع میں ہونے والے مظاہروں میں فلسطینی دھڑوں کے ساتھ فوری معاہدہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین مقبوضہ بیت المقدس میں قابض اسرائیلی وزیر اعظم کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے جمع ہوئے۔ انہوں نے غزہ کی پٹی میں قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا اور مرحلہ وار جزوی معاہدے سے انکار کیا۔
قابض اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف برداری سے قبل امریکہ کی جانب جذبہ خیر سگالی کے طور پرمنی ڈیل کرنے کے امکان کے بارے میں کہی جانے والی باتوں کی درستی سے انکار کرتے ہوئے اس معاملے کو خالص جھوٹ قرار دیا۔
اس سے قبل ہفتے کے روز غزہ میں قابض قیدیوں کے اہل خانہ نے فوج کی وزارت کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے منعقدہ ایک کانفرنس میں نیتن یاہواور ان کی حکومت پر “سیاسی مفادات” کی بنا پر تبادلے کے معاہدے کی تکمیل میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا تھا۔
حزب اختلاف اور قیدیوں کے اہل خانہ نیتن یاہو پر اپنے عہدے اور حکومت کو برقرار رکھنےکے لیے کسی معاہدے تک پہنچنے میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتے ہیں۔ انتہا پسند وزراء ایتماربن گویر اور وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ حکومت سے دستبردار ہونے اور اسے گرانے کی دھمکی دیتے ہیں جس کی وجہ سے غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔