قابض اسرائیلی حکام نے بیت المقدس کے مزاحمتی “العیساوی” خاندان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس خاندان کے بیٹوں کو ان کی سرزمین اور مقدسات سے محبت کی سزا دی جا رہی ہے۔ انہیں شہر سے دور کیا جا رہا ہے اور خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے ملنےسے محروم رکھاجاتا ہے۔ یہ خاندان 30 سال سےاپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی بار بار گرفتاریوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملنے سے محروم ہے۔
فلسطین سینٹر فار پریزنرز اسٹڈیز نے منگل کو فلسطینی انفارمیشن سینٹر کو جاری ایک بیان میں کہا کہ “قابض اسرائیل کی عدالت نے سوموار کو قیدی مدحت طارق العیساوی کی قید میں اگلے سال 2024 تک توسیع کردی۔ مدحت کو اسرائیلی جیل سے رہائی کے صرف دو ماہ بعد ستمبر 2021 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری سے قبل وہ 8 سال قید کی سزا کاٹ چکےہیں۔ اسرائیلی عدالت نےانہیں مغربی کنارے کے علاقے میں داخل ہونے پر بھی پابندی عاید کررکھی ہے۔ مجموعی طورپر مدحت انیس سال کا عرصہ صہیونی ریاست کی زندانوں میں گذار چکےہیں۔
اسی خاندان کے دوسرے بیٹے سامر العیساوی اسیر تحریک کی تاریخ کی سب سے طویل بھوک ہڑتال کی وجہ سے مشہور ہیں۔ انہیں سنہ 2011 میں وفاء الاحرار معاہدے میں 10 سال قید میں گذارنے کے بعد رہا کیا گیا تو اسوقت ان کی قید کا عرصہ 30 سال ہوچکا تھا۔ انہیں 7 جولائی 2012 کو دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ اسرائیل کی نام نہاد عوفر عدالت نے (شالیت کمیٹی) کی سفارش کی بنیاد پر ان کی سابقہ مزید بیس سال قید کی سزا بحال کردی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق قیدی سامرالعیساوی نے اگست 2012 میں بھوک شروع کی تھی۔ ان کی دوبارہ گرفتاری اور ان کی سابقہ قید کی بحالی کے خلاف احتجاج میں ان کی بھوک ہڑتال کو اسیر تحریک کی تاریخ کی سب سے طویل ہڑتال کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ بھوک ہڑتال مسلسل 9 ماہ تک جاری رہی۔ انہیں دسمبر 2013 میں رہا کر دیا گیا مگر جون 2014 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور وہ ابھی تک قید ہیں۔
مرکز نے عندیہ دیا کہ ان کی بہن وکیل شیرین العیساوی کو بھی کئی بار گرفتار کیا گیا اور 5 سال سے زائد عرصے تک قابض ریاست کی جیلوں میں گذارے۔
قابض فوج نے مارچ 2014ء میں وکیل العیساوی کو دوبارہ گرفتار کیا، اس پر جیلوں میں قیدیوں کو خدمات فراہم کرنے کا الزام لگایا۔ اس کی دو سال تک گرفتاری اور درجنوں بار اس کے مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کے بعد القدس کی مرکزی عدالت نے ایک حکم جاری کیا جس میں انہیں چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزا پوری کرنے کے بعد وہ سنہ 2017 میں رہا ہوئیں