تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
سات اکتوبر کو فلسطین کی اسلامی مزاحمت القسام اور القدس بریگیڈز نے مشترکہ طور پر طوفان الاقصیٰ آپریشن کا آغاز کیا اور اسے انتہائی کامیابی کے ساتھ انجام پذیر کیا۔ اس آپریشن نے غاصب صیہونی حکومت اور فوج کو دہلا کر رکھ دیا۔ اس آپریشن کی گرج نے جہاں اسرائیل کو متزلز ل کیا وہاں ساتھ ساتھ امریکی حکومت اور خاص طور پر سی آئی اے بھی متزلزل ہوئی۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن کی متعدد کامیابیاں ہی جن کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اس مقالہ میں ہم ایک ایسی اہم کامیابی کا ذکر کریں گے کہ جس کے بعد اسرائیل اپنی شکست کو برداشت کرنے سے قاصر ہو گیا اور جس وجہ سے غزہ پر شدت کے ساتھ حملہ آور ہوا اور تاحال معصوم انسانوں کا قتل عام کر رہاہے۔
اسرائیل کے صحرا نیگیو میں ریم نامی مقام پر غاصب صیہونیوں نے ایک خفیہ معلومات کا مرکز یعنی ایک مشترکہ انٹیلی جنس ہیڈ اکوارٹر قائم کیا تھا جس کو 8200سائبر انٹیلی جنس یونٹ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک جدید ترین طرز پر بنا یا گیا انٹیلی جنس یونٹ تھا جس کا کام پورے ایشیائی ممالک میں مداخلت سمیت ہیکنگ اور خفیہ معلومات نکالنا تھا اور ساتھ ساتھ ایشیائی ممالک ک لئے اسرائیل کے آئندہ منصوبوں کی منصوبہ بند ی کرنا بھی شامل تھا۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن ساڑھے تین گھنٹے جاری رہا اور جب اس آپریشن کا اختتام ہوا تو فلسطین کی اسلامی مزاحمت نے کئی ایک کامیابیوں کو سمیٹ لیا تھا جن میں سے یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ اسرائیلی فوج کے ٹھکانوں سے خفیہ دستاویزات اور مستقبل کی منصوبہ بندی سے متعلق اہم معلومات بھی حاصل کر لی گئی ہیں۔
آپریشن کے اختتام پر غاصب صیہونی حکومت کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا تھا ک عام شہریوں کو قتل کیا گیا ہے اور بچوں کو قتل کیاگیا ہے لیکن اسرائیل نہ تو ان عام شہریوں کی تصویریں نشر کر نے میں کامیاب ہوا اور نہ ہی بچوں کی کوئی تصویر میڈیا کو دکھا پایا جس کے بعد یہ پراپیگنڈا بری طرح ناکام ہو گیا۔
حقیقت کچھ یوں ہے کہ Nova Music Festivalکہ جہاں چار ہزار ایسے افراد موجود تھے جو اسرائیل کے ایک خصوصی سائبر انٹیلی جنس یونٹ کے ماہر ترین عہدیدار تھے جن کو دنیا بھر سے تلاش کرنے کے بعد اس اہم ترین خفیہ یونٹ میں بھرتی کیا گیا تھا۔فلسطینی مزاحمت نے کاروائی کے آغاز پر اس مقام سے تقریبا دوسو تینتالیس ایسے افراد کو گرفتار کیا جو اسرائیل فوج اور اس سائبر یونٹ کے اہم ترین عہدیدار تھے اور ان میں کئی ایک بریگیڈئیرز بھی شامل تھے۔ جیسے ہی اسرائیلی حکام کو اس خبر کا علم ہوا تو انہوں نے پہلے مرحلہ پر اس میوزک فیسٹیول کہ جہاں مذہبی تہوار منانے کے لئے یہ سب جمع تھے جنگی جہازوں کے ذریعہ بمباری کی اور باقی ماندہ تمام انٹیلی جنس عہدیداروں کو قتل کر دیا اور اس مقام کو بھی تباہ کر دیا گیا کہ جہاں اس خاص یونٹ یعنی 8200کا مرکز تھا۔ البتہ دوسری جانب فلسطینی مزاحمت نے اس یونٹ کے دو سو سے زائد اہم افراد کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کیا اور ساتھ ساتھ اس مرکز سے کمپیوٹر سرور کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا کہ جس میں تمام تر خفیہ دستاویزات اور مستقبل میں خطے سمیت عرب ممالک اور ایشیائی ممالک کے خلاف اسرائیلی منصوبے موجود تھے۔
یہ بات قابل غو ر ہے کہ اسرائیل میں بنایا گیا مشترکہ انٹیلی جنس نیٹ ورک 8200در اصل امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی ممالک کی مشترکہ کوشش کے ذریعہ وجود میں آیا تھا۔ جیسے ہی اس یونٹ کی ناکامی کا اعلان ہواسب سے پہلے امریکی سی آئی اے چیف ویلیم برنس نے اپنے تمام طے شدہ پروگرام اور میٹنگز کو منسوخ کرتے ہوئے 8200سائبر یونٹ سے متعلق تمام حکام کو جمع کر لیا اور اسی کے نتیجہ میں امریکی صدر اگلے چند گھنٹوں میں اسرائیل کی غاصب حکومت سے ملنے جا پہنچے۔ دیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی حکومتیں بھی اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت میں سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ در اصل امریکہ اور یورپی حکومتیں کی دوڑیں اس وجہ سے لگ گئی تھیں کیونکہ ان سب کا مشترکہ نظام ناکامی کا شکا ر ہو چکا تھا اور تمام اہم ترین معلومات فلسطین کی مزاحمت کے پاس پہنچ چکی تھیں۔
سائبر انٹیلی جنس کے سب سے بڑے مرکز 8200کی ناکامی کے بعد پہلے مرحلہ میں امریکن سی آئی اے کے کچھ ڈائرکٹرز نے کہا کہ اسرائیل کی اندرونی سیکورٹی یعنی شین بٹ اور بیرونی سیکورٹی ایجنسی یعنی موساد دونوں بری طرح ناکام ہو گئی ہیں کہ وہ اس بارے میں لا علم تھیں کہ حماس اور جہاد اسلامی کی جانب سے اتنا بڑا حملہ ہو سکتا ہے اور خاص طور پر 8200یونٹ پر حملہ ہو سکتا ہے۔ ا س تنقید کے بعد غاصب صیہونی حکومت کے عہدیدار بھی آگ بگولہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ یہ صرف اسرائیل کی انٹیلی جنس ناکامی نہیں ہے بلکہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی حکومتوں کی مشترکہ ناکامی ہے کیونکہ 8200سائبر انٹیلی جنس یونٹ سب کا مشترکہ تھا اور کسی ایجنسی کو یہ خبر نہیں تھی کہ سات اکتوبر کو یہاں کیا ہونے والا ہے۔ امریکہ اسرائیل اور یورپی و مغربی ممالک کی اس چپقلش نے اس راز سے بھی پردہ اٹھا ہی دیا کہ حماس اور جہاد اسلامی کے پاس دو سو تینتالیس سائبر انٹلی جنس کے ماہر ترین افراد گرفتار ہیں اور جبکہ کئی ایک بریگیڈئیرز ہیں جو اس یونٹ میں کام کرنے والے ماہر افراد کی نگرانی کر رہے تھے۔
امریکہ، اسرائیل سمیت تمام مغربی حکومتوں نے اپنی اس بد ترین شکست کہ جس کی وجہ سے انکو اپنے ہی تین ہزار سے زائد لوگ نووا میزک فیسٹیول کے دوران قتل کرنا پڑے۔ساتھ ساتھ معلومات اور خفیہ دستاویز ات سمیت اہم ترین کمپوٹر سرور کا فلسطینی مجاہدوں کے ہاتھ میں چلے جانا بھی ناقابل برداشت تھا لہذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ غزہ کو مکمل طور پر راکھ کا ڈھیر بنا دیا جائے تا کہ دو سوتینتالیس سائبر ماہرین جو خفیہ ایجنسی کے اعلی عہدیدار بھی ہیں انکو قتل کر دیا جائے اور حماس کے قبضہ سے خفیہ معلومات اور دستاویزا ت کا کمپیوٹر سرور واپس لیا جائے لیکن اسرائیل تاحال اپنے اس مقصد میں ناکام ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی حکومتوں کی ایشیائی ممالک کے خلاف ناپاک منصوبہ بندی فلسطینی مجاہدین کے آپریشن طوفان الاقصیٰ کی برکت سے آشکار ہو چکی ہے اور شاید کسی نہ کسی ملک میں منتقل بھی کی جا چکی ہے۔اب اسرائیل او ر اس کے آقاؤں کے پاس ندامت اور ذلت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جنگ کے طول ہونے اور جارحیت میں شدت کی ایک وجہ یہی ہے کہ ان تمام مغربی حکومتوں کی بڑی ناکامی دنیا کے سامنے آ چکی ہے او ر اب مغرب میں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا مستقبل خطرے میں ہے۔ حقیقت میں امریکہ اور اسرائیل سمیت تمام مغربی حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں۔چاہے یہ جنگ میں جس قدر شدت اختیار کر لیں ان کو مزید شکست اور ناکامی ہی اٹھانا پڑے گی۔ کامیابیاں فلسطینی مزاحمت سمیٹ چکی ہے۔بڑی قربانیوں کے بدلے میں بڑی کامیابی ہے۔