تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
سنہ1948ء میں برطانوی و یورپی ممالک سمیت امریکہ کی حمایت سے فلسطین کی سرزمین پر ناجائز اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود ہمیشہ سے خطے میں شکست ناپذیر رہنے والی ریاست تصور کی جاتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے تصور کو کمزوری کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے حالات میں کہ جب عرب ممالک کی فوجیں بھی اس غاصب صیہونی ریاست کے مقابلہ میں شکست کھا کر پیچھے ہوتی چلی گئیں تو ا س زمانہ میں خطے میں مقاومت یعنی مزاحمت نے اپنا راستہ اختیار کیا۔ یہ مقاومت کیا تھی اور کیا ہے؟ کیا یہ کوئی فوج ہے؟ کیا ان کے پاس بھی غاصب صیہونی حکومت کی طرح جدید اسلحہ او امریکی و برطانوی حکومتوں کی حمایت ہے؟ کیا اس مزاحمت کے پاس غاصب صیہونی حکومت جیسے جدید ٹینک گولہ بارود اور فضائی برتری موجود ہے؟ ان تمام باتوں کا اگر جواب تلاش کیا جائے تویقنیا جواب نہیں ہے۔
یہ سب کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی آخر ایسا کیا ہے کہ اسرائیل رفتہ رفتہ ڈوب رہا ہے۔وہ اسرائیل جو راتوں رات فلسطین پر قابض ہو گیا، فلسطینیوں کو گھر سے نکال دیا، فلسطینیوں کا کھلم کھلا قتل عام کیا، نہر سوئز پر جنگ مسلط کی، دو مرتبہ عرب ممالک کی فوجوں کے ساتھ جنگ میں بھی عرب فوجیں اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہیں، مسلمانوں کا پہلا مقدس دارلحکومت القدس شریف بھی قبضہ کر لیا، شام اور مصرسمیت اردن کے علاقوں پر بھی قابض ہونے والی یہی صیہونی غاصب ریات اسرائیل تھی۔ غاصب اسرائیل کے عزائم یہاں تک نہیں تھے بلکہ اس کے بعد لبنا ن پر فوجی چڑھائی اور قبضہ، اسی طرح امریکہ کی مدد کے ساتھ مصر جیسی حکومت کو کیمپ ڈیوڈ میں جھکنے پر مجبور کرنا یہ سب کچھ غاصب صیہونی حکومت کے حق میں ہوتا رہاہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل کیسے ڈوب رہا ہے؟کیا واقعی اسرائیل ڈوب رہا ہے؟
حال ہی میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سابق انٹیلی جنس اور آپریشنز کے چیف ھیم ٹومر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی کاروائیاں درست اور بہترین انٹیلی جنس معلومات کا نتیجہ ہیں۔اگر اسرائیل نے شمال فلسطین میں حزب اللہ کے حملوں کو روکنے کے لئے لبنان پر حملہ کیا تو یقینی طور پر یہ اسرائیل کے صیہونی وژن کی نابودی کا باعث بنے گا۔
صیہونی ایجنسی کے اس عہدیدار کی گفتگو خود اس بات کا خلاصہ کر رہی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت ڈوب رہی ہے۔ وہ صیہونی حکومت جو چند گھنٹوں میں عرب ممالک کی فوجوں کو شکست دیتی تھی آج آٹھ ماہ میں جہاں غزہ میں کامیاب نہیں ہو پائی وہاں ساتھ ساتھ جنوبی لبنان سے مسلسل حزب اللہ کی کاروائیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت کھو بیٹھی ہے۔ یہ یقینا فلسطینی مزاحمت اور مزاحمتی گروہوں کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے اور اس بات کا اشارہ ہے کہ اسرائیل واقعی ڈوب رہا ہے۔
آج ہم اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ امریکہ اور مغربی حکومتیں مل کر اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں۔ غزہ میں نسل کشی کی جا رہی ہے۔ لیکن اس بات کا مشاہدہ بھی کیا جا رہاہے کہ اسرائیل کی حمایت کرنے والی یہ سب امریکی ومغربی حکومتیں اس بات کااعتراف کر رہی ہیں کہ صیہونی حکومت کے لئے جو حالات پیدا ہو چکے ہیں وہ ایسے ہیں کہ غاصب صیہونی حکومت کے لئے کوئی راہ نجات موجود نہیں ہے۔ یہ خود اس بات کی ایک اور مضبوط دلیل ہے کہ اسرائیل ڈوب رہا ہے۔
آج غاصب صیہونی حکومت اپنے وجود کی بقاء کے لئے سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ لیکن دوسری جانب اسی صیہونی حکومت کے مورخ لکھ رہے ہیں کہ اگر صیہونی غاصب حکومت کے اختلافات جو طوفان اقصیٰ کے بعد سے شروع ہوئے ہیں بیان کرنا شروع کر دئیے جائیں تو مقبوضہ فلسطین میں موجود صیہونی آباد کاروں کے درمیان خون ریزی شروع ہو سکتی ہے اور ایک وقت میں مقبوضہ فلسطین پر قابض چالیس لاکھ صیہونی آباد کار فلسطین سے فرار کر سکتے ہیں جو کہ غاصب صیہونی حکومت کے لئے بربادی کا سبب بنے گا۔ اس مورخ کی بات بھی ا س بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل ڈوب رہی ہے۔
سات اکتوبر کے بعد سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل ایسی مصیبتوں میں گرفتار ہو چکی ہے کہ اب اس کے لئے نجات کا کوئی راستہ باقی نہیں اور اب صرف اور صرف اسرائیل کی نابودی ہے جو عنقریب دنیا مشاہدہ کرے گی۔