رام اللہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) فلسطین میں اسلامی جہاد موومنٹ نے کہا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے غرب اردن کے شمالی شہر جنین اور اس کے پناہ گزین کیمپ لوگوں کے خلاف منظم طریقے سے نقل مکانی، تباہی اور قتل عام فلسطینی سرزمین پر ہمارے وجود کے خلاف بنجمن نیتن یاہو کی مجرمانہ حکومت کی طرف سے شروع کی گئی تباہی کی جنگ کا تسلسل ہے۔
اسلامی جہاد نے ایک پریس بیان میں زور دیا کہ جنین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ “مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا تسلسل ہے جس کا مقصد غرب اردن پر الحاق اور خودمختاری کو بڑھانا ہے۔”
اسلامی جہاد نےفلسطینی اتھارٹی کی پولیس پر جنین پر جارحیت میں “قابض” دشمن کے ساتھ ساز باز کا الزام لگایا اور نہتے شہریوں کے قتل عام میں اسے برابر کا مجرم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اتھارٹی اور اس کی سکیورٹی سروسز نے “قابض‘‘ کو جنین کیمپ پر 40 دنوں سے زائد عرصے تک محاصرہ کرنے میں خدمات فراہم کیں، اور کھلے عام اور عوامی طور پر اس کے ساتھ ملی بھگت کی اور کیمپ پر حملہ کرنے کی راہ ہموار کی۔”
اسلامی جہاد نے فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی سروسز کی جانب سے جنین کیمپ میں زخمیوں کا تعاقب کرنے اور ہسپتالوں کے اندر سے ان کی گرفتاری کی مذمت کی، جس سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ عباس ملیشیا قابض دشمن کے ساتھ اپنی قوم کے خلاف سکیورٹی کوآرڈینیشن پر عمل پیرا ہے۔
اسلامی جہاد نے اس وحشیانہ اسرائیلی جارحیت کے سامنے مزاحمت جاری رکھنے کےعزم کا اعادہ کیا۔ اس نے مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین، مقدس مقامات اور حقوق کا دفاع کریں اور قابض دشمن کے مذموم مقاصد کو ناکام بنائیں۔
جنین کیمپ پر مسلسل تیسرے روز بھی صہیونی جارحیت جاری ہے، جس میں 10 شہید اور درجنوں زخمی ہوئے شہر اور اس کے قلب میں واقع کیمپ کے اطراف کی سڑکیں اور انفراسٹرکچر تباہ کردیا گیا ہے۔
قابض فوج نے کل منگل کے روز ایک بیان میں جنین میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا، جسے اس نے “آہنی دیوار” کا نام دیا تھا، اس کی منظوری گذشتہ جمعہ کو اسرائیلی فوجی ور سیاسی کابینہ نے دی تھی۔
قابض فوج نے جنین کے سرکاری ہسپتال کے داخلی راستوں اور اطراف کی گلیوں کو بلڈوز کرنے کے بعد اسے بند کردیا۔ کیمپ سے آنے والی خبریں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس کے پڑوس میں بہت سے زخمی ہیں جن تک ایمبولینسیں نہیں پہنچ پا رہی ہیں، جب کہ رہائشی انہیں ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اور انھیں ہسپتال پہنچانے کے لیے مدد کے لیے کالیں کررہے ہیں۔