تحریر: ڈاکٹر صابر ابومریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
ایرا ن نے یکم اکتوبر کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف اپنی انتقامی کاروائی کا دوسرا مرحلہ شروع کیا اور تفصیلات کے مطابق 181میزائل غاصب صیہونی حکومت کے متعدد فوجی اور انٹیلی جنس مقامات پر فائر کئے گئے ۔اس سے پہلے بھی ایرا ن نے آپریشن وعدہ صادق کے پہلے مرحلہ میں اس وقت غاصب صیہونی حکومت کو میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا جب غاصب اسرائیلی دشمن نے دمشق میں ایران کے اعلیٰ سطحی کمانڈر جنرل زاہدی کو ایرانی سفارتخانہ کی عمارت پر حملہ میں شہید کیا تھا ۔ ایران نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے جنرل کی شہادت کا بدلہ ضرور لیں گے۔
آپریشن وعدہ صادق دوئم کا کافی دنوں سے انتظار تھا۔ کیونکہ تہران میں حما س کے سربراہ اسماعیل ھانیہ کی شہادت کے بعد ایران نے اعلان کیا تھا کہ وہ غاصب صیہونی دشمن سے اسماعیل ھانیہ کا انتقام ضرور لے گا۔ اس عنوان سے دنیا بھر میں کافی چہ میگیوئیاں بھی جاری تھیں کہ آخر ایران کب اسرائیل سے بدلہ ے گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ یہ سوال شدت اختیار کرتا چلا جا رہا تھا۔
لبنان میں غاصب اسرائیلی دشمن ی کاروائیوں میں اضافہ کے نتیجہ میں حزب اللہ کے کئی ایک اہم کمانڈرز شہید ہوئے اور آخری حملہ میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ بھی شہید ہو گئے ۔پےدر پے اسرائیلی دہشت گردی کے واقعات نے ایران کے آپریشن وعدہ صادق دوئم پر شدت سے سوال اٹھانا شروع کر دئیے تھے۔
آخر کار یکم اکتوبر کو ایران نے غاصب صیہونی دشمن کے خلاف جوابی کاروائی کا آغاز کر دیا اور وعدہ صادق دوئم کے آغاز پر 181میزائل جن میں بیلسٹک اور ہائپر سانک میزائل بتائے جا رہے ہیں استعمال کیا گیا ہے۔
ہمیشہ کی طر مسلمانوں کی صفوں میں مخفی کالی بھیڑیں نکل کر سامنے آنا شروع ہو چکی ہیں اور مسلسل ایران کو تنقید کا نشانہ بنا کر غاصب اسرائیل کے نقصان کی طرف سے توجہ ہٹا نا چاہتے ہیں۔ ان کامقصد جہاں غاصب اسرائیل کے نقصانات سے توجہ ہٹانا ہے وہاں ساتھ ساتھ پاکستان کی مخصوص مذہبی فضاء میں فرقہ واریت کو بھی رپوان چڑھانا ہے۔ ان کالی بھیڑوں میں نام نہاد اسکالر، استاد، صحافی اور سوش میڈیا کے افراد شامل ہیں جنہوںنے کبھی فلسطین کے حق میں تو ایک بات نہیں کی لیکن جب بھی غاصب اسرائیل کے خلاف حماس، جہاد اسلامی یا حزب اللہ یا انصار اللہ یمن کاروائی کرتے ہیں اور غزہ کے مظلوموں کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ عناصر پاکستان میں امریکی و اسرائیلی آقائوں کو خوش کرنے کے لئے ایسی من گھڑت خبروں اور منفی پرایگنڈے کا آغاز کرتے ہیں جس کا براہ راست فائدہ امریکہ اور اسرائیل کو پہنچتا ہے۔ پس اس عمل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے ک حامد میر کا یہ دعوی سچ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے ایجنٹ ہماری صفوں میں موجود ہیں جو ہمیں اندر سے کھوکھلا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔
ایران کے وعدہ صادق دوئم نے ایک نپی تلی کاروائی انجام دی ہے جس میں غاصب صیہونی حکومت کے ملٹری اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں نیفتام ائیر بیس جو اس وقت F-35جنگی طیاروں کی سب سے بڑی فوجی ائیر بیس ہے اس کو نشانہ بنا یا گیا تھا اور عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ فوجی ہوائی اڈہ 95%تباہ ہو چکا ہے۔ اس اڈے کو اس لئے نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ یہاں سے ہی جنگی طیاروں نے پرواز لے کر بیروت میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کو شہید کرنے کی دہشتگردانہ کاروائی انجام دی تھی۔
ایران کے وعدہ صادق دوئم میں غاصب صیہونی حکومت کا دوسرا سب سے بڑا نقصان تل ابیب میں موجود موساد کا مرکزی ہیڈ کوارٹر بھی نشانہ بنایا گیا ہے جہاں پر متعدد موساد کے اعلی افسران سمیت اہلکاروں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہو ہی ہیں۔البتہ کیونکہ غاصب اسرائیل نے سینسر شپ لگا رکھی ہے تاہم خبروں کو باہر نکلنے نہیں دیا جا رہا ہے۔
ایران کے وعدہ صادق دوئم میں تیسرا اہم نقصان اسرائیل کی گیس فیلڈ ہے جو سب سے بری گیس فیلڈ کے طور پر کام کر رہی تھی اس کو نشانہ بنا یا گیا جس کے نتیجہ میں گیس کی سپلائی کا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے۔
ایران کے وعدہ صادق دوئم میں چوتھی کامیابی یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی ملٹری آئل فیلڈ کو نشانہ بنایا گیا ہے جہاں سے فوجی فیولنگ کی جاتی تھی ۔اس کے بعد آئل فیلڈ کرائسز کا شکار ہے اور فوجی اسلحہ ساز فیکٹری یا گاڑیوں کو ایندھن کی سپلائی تا حال بحال نہیں ہوئی ہے۔
ایران کے وعدہ صادق دوئم میں سب سے اہم کامیابی جو اب تک کسی بھی ذرائع ابلاغ سے نشر نہیں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کا سب سے بڑا دفاعی نظام آئرن ڈوم ناکارہ کر دیاگیا تھا ۔یہ ناکارہ اس طرح سے کیا گیا تھا کہ میزائل حملہ سے چند لمحات قبل اسلامی مزاحمت نے آئرن ڈوم کو سائبر حملہ کے ذریعہ ناکارہ کر دیا تھا جس کے نتیجہ میں آئرن ڈوم ایران کےمیزائلوں کو روکنے میں بری طرح ناکام ہو گیا تھا۔ اس وقت اندرون اسرائیل بھی یہی سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر آئرن ڈوم نے کام کیوں نہیں کیا ؟ ایران کے میزائل کس طرح سے بارہ منٹ کے اندر تل ابیب اور پور ے مقبوضہ فلسطین میں صیہونی فوجی اہداف کو نشانہ بناتے رہے۔ اس بحث نے خود صیہو نی آباد کاروں اور حکومت کو بوکھلاہٹ کا شکار کر رکھا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ ایران نے جیسا کہا تھا وہ کر دکھایا ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے مسلمان ممالک بھی اپنا کردار ادا کریں گے یا ابھی بھی امریکہ اور اسرائیل کی کاسہ لیسی میں مصروف رہیں گے۔