تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
ایران اور غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کے درمیان جنگ کے آغاز کو آج آٹھ دن بیت چکے ہیں۔ ان آٹھ دنوں میں کافی کچھ واضح ہو چکا ہے۔ بہت سے نام نہاد تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ کچھ امریکی رعب اور دبدبہ کے زیر اثر رہنے والے لکھاری اور تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کو دو ہفتہ کی مہلت دی ہے۔ دوسری طرف غاصب صیہونی گینگ جو جنگ کے میدان میں بری طرح شکست کھا چکی ہے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کر کے یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے کہ ایران کا نظام سیاست تباہ ہو گیا ہے۔
یہ بات بڑی واضح ہے کہ جنگ کےپہلے روز ہی راقم نے متعدد ٹی وی چینلز پر بات کرتے ہوئےامریکہ اور غاصب صیہونی گینگ کے مقاصد کا پرد ہ چاک کیا تھا اور کہا تھا کہ اسرائیل کا یہ حملہ صرف جوہری صنعت کو روکنے کے لئے نہیں ہے بلکہ انہوںنے سوشل میڈیا پر جو خواب پہلوی خاندان کو دکھایا ہے اسے پورا کرنے کی ایک طاقتور کوشش ہے ۔
ہم اگر گذشتہ آٹھ دن کے حالات کا جائزہ لیں تو پہلا دن جنگ کا کچھ ایسا تھا جیسے امریکہ اور صیہونی گینگ نے ترتیب دیا تھا کہ یکدم فوجی قیادت کو قتل کریں گے اور ملک میں انارکی پھیلائی جائے گی۔ اس عنوان سے سوشل میڈیاپر ایک معروف لکھاری رعایت اللہ فاروقی کی تحریر کے یہ جملے بالکل درست ہیں کہ حملے کی پلاننگ یہ سوچ کر کی گئی تھی کہ ایران کی ٹاپ کمانڈ کا صفایا کیا جائے گا ،پھر موساد کے داخلی ایجنٹوں کے ایران میں جگہ جگہ دہشتگرد حملوں اور ایرانی ایئرڈیفنس کے ہیک ہونے سے پورے ملک میں بے یقینی اور افراتفری کی فضا بن جائے گی جس سے امریکہ اور اسرائیل کا رجیم چینج کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔
بہر حال ایران کے دشمنوں نے بہت بڑی منصوبہ بندی کی تھی اور ایرانی فوجی کمانڈر محسن رضائی کے جملوں پر اگر ہم غور کریں تو انہوںنے کہا کہ غاصب صیہونی گینگ نے ایران کو شام بنانے کی کوشش کی تھی۔ جی ہاں جس طرح شام میں افرا تفری پھیلا کر حکومت کا خاتمہ کیا اور ایک جولانی جیسے دہشت گرد کو لا بٹھایا ٹھیک اسی طرح ایران کے لئے منصوبہ بندی کی گئی تھی ۔محسن رضائی کہتا ہے کہ آج جب جنگ کو آٹھ دن بیت چکے ہیں اور جنگ جاری ہے اس دوران ہم یہ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں کہ صیہونی دشمن ایران کو شام بنانا چاہتا تھا لیکن حقیقت میں غاصب صیہوی ریاست اسرائیل خود شام بن چکی ہے۔
ماہرین سیاسیات اور ایران کے تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ غاصب صیہونی گینگ نے ایران کے بارے میں جو حساب کتاب لگائے تھے وہ سارے الٹ ہو گئے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب ایرا ن نے غاصب اسرائیل کے بہت بڑے حملہ میں ناقابل تلافی فوجی قیادت کے نقصان کے چند گھنٹوں کے اندرخود کو اس جنگ میں وارد رکیا اور دشمن کی توقع سے بڑھ کر دشمن کو سرپرائز کر دیا۔اس موقع پر ایران کی قیادت بالخصوص اعلی قیادت سپریم لیڈر نے بڑی بہادری کے ساتھ کمانڈ کی اور دشمن کو اس کے تمام منصوبوں میں ناکام کیا۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ایسے وقت میں کہ جب غاصب صیہونی گینگ اسرائیل پوری طاقت کے ساتھ ایران پر حملہ آور تھی، اندرونی طور پر ایجنٹوں نے ایران کے اندر انارکی پھیلانا شروع کر دی تھی اور دہشت گردانہ کاروائیاں بھی شروع ہو چکی تھیں، جو کچھ جنگ کے تیسرے روز مشہد شہر کے ہوائی اڈے کے اطراف میں ہوا وہ سب اندرونی دہشت گردوں کی کاروائیاں تھیں۔یہاں تک کہ ملک کا فضائی دفاعی نظام بھی ہیک کر لیا گیا تھا۔ایران کی فضائوں میں اسرائیلی جنگی جہاز آزادی سے گھوم رہے تھے اور جہاں چاہتے تھے بمباری کرتے تھے۔ایسے حالات میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں صدر مسعود پزیشکیان اور تمام فوجی قیادت کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئیے کہ جنہوںنے فوری طور پر شہید ہونے والے کمانڈروں کی جگہ نئے کمانڈروں کو متعین کیا اور پھر رپورٹس کے مطابق 8 گھنٹے میں ایئرڈیفنس کا کنٹرول واپس حاصل کیا۔
ایران نے یقینی طور پر انتہائی سخت اور مشکل حالات میں امریکہ اور غاصب صیہونی گینگ کی اس سازش کا مقابلہ کیااور پھر غاصب اسرائیل کے خلاف اپنی جوابی کاروائی کا آغاز کیا جو آج آٹھ دن گزرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ ہر صبح اور ہر شام تل ابیب اور حیفا سمیت اہم مقامات ، حساس اور فوجی ہیڈکوارٹرز سمیت غاصب اسرائیلی فضائیہ کے دفاعی نظام پر جوابی حملے جاری ہیں۔
ایران نے نہ صرف اسرائیل کے خلاف جوابی کاروائی جاری رکھی ہوئی ہے بلکہ اندرون ایران بھی ایک بہت بڑا آپریش جاری ہے جس میں جاسوسوں اور ملک کے غداروں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ چل رہا ہے ۔متعدد ایسے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو موساد کے ایجنٹ ہیں۔ایران کے ذرائع ابلاغ کے مطابق کئی موساد ایجنٹ تو رنگے ہاتھوں پکڑے جا چکے ہیں۔
جنگ کے پہلے روز اسرائیلی حملہ کی شدت دیکھ کر ایران کے چاہنے والے اور دوست بھی یہ سوچ رہے تھے کہ شاید ایران اس حملہ سے جانبر نہ ہو گا لیکن ایرا ن نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ چند گھنٹوں کے اندر اندر نہ صرف ایران میدان میں واپس آیا بلکہ اس نے میدان کو اپنے حساب سے تیار کر لیا ہے۔ جنگ کےآٹھ دنوں میں اگر مشاہدہ کیا جائے تو غاصب صیہونی حکومت کے متعدد اہم مقامات کو ایران تباہ کر چکا ہے۔ اسرائیل کا دفاعی نظام ایران کے میزائلوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ ایرانی حکمت عملی کی وجہ سے اسرائیلی دفاعی فضائی نظام جہاں ناکارہ ہوا وہاں ساتھ ساتھ ایرانی ہیکروں کے ہاتھ بھی چڑھا جس کا ثبوت کچھ یہ ہےکہ چند روز قبل آئرن ڈوم نے اپنے ہی علاقوں پر میزائل فائر کرنا شروع کر دئیے تھے۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو رہاہے کہ غاصب صیہونی حکومت کے اندر ہونے والی تباہی اور بربادی کو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر نشر کیا جا رہاہے۔ متعدد ٹی وی چینلز کے رپورٹرز کو گرفتار کیا گیا اور انہیں کوریج کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ایرا ن نے غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کے خلاف جو دفاعی حکمت عملی اپنائی ہے دنیا بھر کے ماہرین اس پر دنگ رہ گئے ہیں کیونکہ اس بہترین حکمت عملی نے اسرائیل کے دفاع کو نابودی کے دہانے پر پہنچا دیاہے ۔اسی وجہ سے نیتن یاہو جنگ کے چوتھےروز سے ہی رونا رو رہاہے اور امریکی حکومت سے التجا کر رہاہے کہ ایران کو روکنے کے لئے امریکہ اسرائیل کا ساتھ دے۔
ایران کی جوابی کاروائی میں اب تک اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹم کی نابودی کے ساتھ ساتھ حیفا میں آئل ریفائنری، اسٹاک ایکسچینج کی عمارت، مائیکرو سافٹ کا مرکز، غاصب صیہونی فوج کا ہیڈ کوارٹر جو کہ ساروکا اسپتال کے قریب تھا، اسی طرح موسا د کے ہیڈ کوارٹر کے ساتھ ساتھ اسرائیلی کی ملٹری انٹیلیجنس سروس جسے امان کہا جاتا ہے اس کا ہیڈ کوارٹر بھی اڑا یا گیا ہے۔اسی طرح ایک اور اسپیشل خفیہ یونٹ جسے 8200کہا جاتا ہے اس حساس ادارے کو بھی ایران کے میزائل کامیابی سے نشانہ بنا چکے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت ڈوب رہی ہے اور امریکہ سے مدد مانگ رہی ہے، ایران کے وزیر خارجہ نے کہاہے کہ ایران کسی قسم کی جنگ بندی نہیں کرے گا یہ جنگ بندی غاصب صیہونی حکومت کے لئے آکسیجن کا کام کرے گی تاہم اس وقت صیہونی گینگ کمزور اور ناتواں ہو چکا ہے تاہم اس کے ساتھ جنگ بندی کرنا اس کو دوبارہ سے بڑھاوا دینا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ جو پہلے ایران کے شہریوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں اور تہران خالی کرنے کا کہہ چکے ہیں اب اس وقت شدید مشکل میں ہیں۔ ٹرمپ حواس باختہ ہو چکا ہے اور G7کا اجلاس چھوڑ کر اسرائیل کی فکر میں واپس بھاگنا پڑا ہے۔سات لاکھ امریکی بھی غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کے پاس ہیں جن کو سمندری راستے سے اسرائیل نے امریکہ جانے سے روک دیا ہے۔امریکی صدر چاہے کتنا ہی کہتا رہے کہ اس جنگ میں امریکہ نہیں ہے لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ امریکہ اس جنگ میں پہلے دن سے ملوث ہے اور اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ٹرمپ کہتا ہے کہ یہ ہماری جنگ ہے۔ اب ایک نیا ڈرامہ رچایا گیا ہے کہ ایران کو دو ہفتے کا وقت دے رہاہوں ، سوال یہی ہے کہ تم ہوتے کون ہو کسی کو وقت دینے والے؟
دوسری طرف امریکی سیاستدانوںنے واضح طور پر ٹرمپ کو خبردار کیا ہے کہ ایران کے خلاف کسی جنگ میں جانا امریکی حکومت کے خاتمہ کا باعث بنے گا۔
امریکی صحافی مسلسل امریکی صدر ٹرمپ کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس تلسی گابرڈ نے تو سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے انٹیلی جنس رپورٹ دی تھی کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا۔ لیکن ٹرمپ کاکہنا ہے کہ’مجھے کوئی پروا نہیں کہ اس نے کیا کہا تھا، میں کہہ رہا ہوں کہ ایران ایٹم بم بنا رہا تو بس بنا رہا ہے‘۔
امریکی صدر غاصب صیہونی گینگ کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے اور یہاں تک دھمکی دی ہے کہ وہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کوبھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ بہر حال جنگ تو جاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس جنگ میں ایران کو کیا نقصان ہو اہے اور غاصب صیہونی حکومت کو کیا نقصان ہوا ؟
ایران کی بات کریں تو ان کی فوجی قیادت چلی گئی لیکن ان کے نزدیک یہ کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی شہادت وہ گذشتہ پینتالیس سال سے دے رہےہیںتو ایسے حالات میں ان کے نزدیک یہ کوئی نقصان نہیں ہے۔ البتہ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل اور امریکی حکومت کا نقصان واضح ہے۔ غاصب صیہونی گینگ کا بھرم ایران نے توڑ دیا ہے اور براہ راست میزائلوں سے غاصب صیہونی حکومت کے دل پر وار کیا ہے ۔ اسی طرح امریکی حکومت کے لئے مشکل پیدا کر دی ہے کہ اگر امریکی فوج اس جنگ میں ایران کے خلاف کوئی کاروائی کرتی ہے تو پھر خطے میں موجود لگ بھگ پچاس ہزار امریکی فوجی ایران کے میزائلوں کی بے رحمی کا سامنا کریں گے۔خلاصہ یہ ہے کہ جنگ پر ایران کا مکمل کنٹرول ہے اور امریکہ سمیت غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کھوکھلے دعوے کر رہےہیں جو کہ زیادہ دیر تک نہیں چلیں گے۔ اب چاہے اس جنگ میں امریکہ براہ راست کود جائے یا نہ کودے ہر دو صورتوں میں غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی عبرت ناک شکست لازمی ہونی ہے۔یہی فلسطینیوں کی امید ہے اور یہی القدس اور فلسطین کی آزادی کی امید ہے