لندن (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں قابض اسرائیلی فوج کے رویے سے نقل مکانی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا جو کہ جبری نقل مکانی کے مترادف ہے۔ اسرائیل غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ذمہ دار ہے۔
تنظیم نے آج جمعرات کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایسے شواہد موجود ہیں جو غزہ میں جبری نقل مکانی کی متعدد کارروائیوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔ فلسطینی پٹی میں قانونی نقل مکانی کے حوالے سے قابض کے دعوے غلط ہیں۔
تنظیم نے زور دیا کہ قابض فوج نے اکتوبر 2023ء سے غزہ میں فلسطینی شہریوں کی بڑے پیمانے پر اور جان بوجھ کر جبری نقل مکانی کی ہے، جس میں غزہ کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی کی نقل مکانی اور ماضی کے دوران غزہ کے بڑے حصوں کی وسیع پیمانے پر تباہی کو نوٹ کیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ کی پٹی میں قابض فوج کی کارروائیاں جنگی قوانین کی تعمیل نہیں کرتی ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس نے جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے گھروں اور شہریوں کے بنیادی ڈھانچے کو مسمار کیا۔
پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے حقوق کی ایک محقق نادیہ ہارڈمین نے کہا کہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کی حفاظت کو برقرار رکھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتی جب وہ انہیں فرار ہونے کے راستوں قتل کردیتی ہے۔ انہیں ایسے علاقے میں نقل مکانی پرمجبور کیا جاتا ہے جو محفوظ نہیں ہوتا مگرا سے محفوظ قرار دیا جاتا ہے۔ جب نقل مکانی کرنے والے وہاں پہنچتے ہیں تو اسرائیلی فوج ان پر بم گراتی ہے۔
تنظیم نے اسرائیلی الزامات کے جھوٹے ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ قابض فوج نے شہریوں کو قانونی طور پر آبادی کے درمیان لڑنے والے مسلح گروپوں پر حملہ کرنے، شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو محدود کرنے کے لیے وہاں سے نکالنے کا دعویٰ کیا ہے مگر اسرائیلی فوج کے ان دعووں میں کوئی صداقت نہیں۔
تنظیم نے مزید کہا کہ “اسرائیل کی طرف سے غزہ کی تقریباً پوری آبادی کے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو جواز فراہم کرنے کے لیے کوئی معقول جبری فوجی وجہ نہیں ہے۔ جبری نقل مکانی کے اسرائیلی نظام نے آبادی کو شدید نقصان پہنچایا‘‘۔
“ہیومن رائٹس واچ نے کہاکہ جبری نقل مکانی بڑے پیمانے پر کی گئی ہے۔ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ منظم اور ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا۔ یہ حرکتیں انسانیت کے خلاف جرم بھی ہیں”۔