کوپن ہیگن (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) ڈنمارک کی ایک ’این جی او‘ نے خبردار کیا ہے کہ جنگ بند ہونے کے بعد بھی غزہ کی پٹی جیسے گنجان آباد علاقے میں گرائےجانے والےدھماکہ خیز ہتھیار شہریوں کو خطرے میں ڈالتے رہیں گے۔
ڈینش ریفیوجی کونسل کی کورین لینکر نے لکھا کہ “جنگ کے دوران گرائے گئے بم اور ناکارہ ہونے والے گولےعام شہریوں کے لیے ایک طویل مدتی خطرہ ہیں جو اکثرلڑائی ختم ہونے کے کافی عرصے بعد معصوم لوگوں کے جانی ضیاع کا باعث بنتی ہیں”۔
غزہ کی پٹی میں قائم این جی او نے کئی ہفتوں کی تحقیقات کے بعد اندازہ لگایا ہے کہ دھماکہ خیز مواد چاہے پھٹا ہو یا نہ ہو تباہ شدہ فلسطینی علاقے کےمکینوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سروے میں شامل 70 فیصد افراد ان علاقوں میں واپس لوٹ گئے جہاں لڑائی ہوئی، جہاں انہیں ان دھماکہ خیز ہتھیاروں سے چوٹ لگنے کا خطرہ ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ “دھماکہ خیز مواد کے صرف 19 فیصد متاثرین کو ابتدائی طبی امداد ملتی ہے۔ بچوں کو خاص طور پر خطرہ ہوتا ہے کیونکہ وہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ دھماکہ خیز ہتھیار صرف کھلونے یا اسکریپ ہیں‘‘۔
لینکر نے کہا کہ “اسرائیل شہری علاقوں میں بار بار اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اندھا دھند ہتھیاروں کا استعمال کرتا ہے”۔
ایک سال سے زائد عرصے سے جاری موجودہ جنگ سے قبل بھی غزہ کی پٹی میں دھماکہ خیز مواد پہلے ہی ایک مسئلہ تھا جو 10 سال سے زائد عرصے سے بار بار اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ گولہ بارود “تصادم کے ختم ہونے کے بعد بھی قتل اور معذوری جیسے مسائل جاری رکھے گا”۔