لیوبلیانا – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) یورپ کی سرزمین سے ایک اصولی اور تاریخی فیصلہ سامنے آیا ہے، جہاں سلووینیا نے قابض اسرائیل کے دو سرکردہ وزیروں، ایتمار بن گویر اور بیزلیل سموٹریچ، کو اپنے ملک میں داخلے سے روک دیا۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور غزہ میں جاری نسل کشی نے پوری انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
سلووینیا کی وزیر خارجہ تانیا فائیون نے اعلان کیا کہ “ہم نے بن گویر اور سموٹریچ کو اپنی سرزمین پر ناپسندیدہ شخصیات قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔” انہوں نے واضح کیا کہ یہ اقدام قابض اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش ہے تاکہ غزہ میں فلسطینی عوام کی اذیت ناک زندگی کا خاتمہ ہو۔
سلووینیا یورپی یونین کی پہلی ریاست بن گئی ہے جس نے اس قدر واضح اور جرات مندانہ پالیسی اپنائی ہے، جب کہ باقی یورپی ممالک ابھی تک اجتماعی فیصلہ کرنے میں ناکام ہیں۔ گزشتہ منگل بروسلز میں یورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں قابض اسرائیل کی انسانی حقوق کی کھلی پامالیوں پر کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے نہ ہو سکا، جس کے بعد بعض ممالک نے انفرادی اقدامات شروع کر دیے۔
اس سے قبل برطانیہ، کینیڈا، ناروے، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا بھی بن گویر اور سموٹریچ پر پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔ ان پر مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف مسلسل تشدد کو ہوا دینے کے الزامات ہیں۔
یہ دونوں شخصیات قابض اسرائیل کی حکومت کا حصہ ہیں اور نہایت متنازع کردار رکھتی ہیں۔ سموٹریچ، جو وزیر خزانہ ہے، مغربی کنارے میں قابض اسرائیلی سول انتظامیہ کا نگران بھی ہے اور غیر قانونی بستیوں کی توسیع کا زبردست حامی ہے، جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ایتمار بن گویر کا نام اشتعال انگیزی، نفرت انگیز تقریروں اور فلسطینیوں کے خلاف نفرت پر مبنی بیانات کی وجہ سے بدنام ہے۔ سال 2007ء میں اسے نسلی تعصب کو ہوا دینے کے جرم میں سزا بھی دی جا چکی ہے۔ یہی نہیں، وہ اپنے گھر میں اس شخص کی تصویر رکھتا ہے جس نے 1994ء میں الخلیل کی ابراہیمی مسجد میں 29 نہتے فلسطینی نمازیوں کو شہید کر دیا تھا۔
سلووینیا کا یہ فیصلہ، ظلم کے سامنے خاموش نہ رہنے والوں کے لیے ایک مثال ہے۔ یہ ایک ایسی صدا ہے جو انصاف، انسانیت اور فلسطینی عوام کی جدوجہدِ آزادی سے وفاداری کی گواہی دے رہی ہے