تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے جارحانہ اور دہشتگردانہ واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ہمیشہ سے ہندوستان میں مسلمان حکومتی سرپرستی میں کام کرنے والی ہندو انتہا پسند جماعتوں اور دہشت گرد گروہوں کی کاروائیوں کا شکار رہے ہیں۔حال ہی میں ایک مرتبہ پھر دارلحکومت دہلی سے ملحقہ ریاست ہریانہ کے ضلع نوح کی سڑکوں پر مسلمانوں کا سستا خون ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے بہایا جا رہاہے۔ ہریانہ میں گذشتہ چار روز میں تین سو سے زائد ایسے گھروں کو مسمار کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے ہیں۔درجنوں مسلمان اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
یہ ہندوستان کا دارلحکومت دہلی ہے جس کی سڑکوں پر ہمیشہ چہل پہل نظر آتی ہے لیکن حالیہ مسلم کش فسادات میں دہلی کی سڑکیں ویران ہیں۔سڑکوں پر فقط ہندو انتہا پسند دندنانت پھرتے ہیں۔حکومتی مشنری مکمل طور پر ہندو انتہا پسندوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں ہندوستان حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ ہمیشہ کی طرح ہندو انتہا پسندوں کے دہشتگردانہ حملوں اور کاروائیوں کی پرد ہ پوشی کرنے کے لئے اس معاملہ کو فسادات کا رخ دے رہے ہیں حالانکہ یہ فسادات نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی فرقہ وارانہ فسادات کی صورت ہے۔ یہاں صورتحال بہت واضح ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ دہشتگردانہ کاروائیاں انجام دی جا رہی ہیں۔ مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جا رہاہے۔لہذا میڈیا پر اس سارے معاملہ کو نہ تو ہندو مسلم فسادات سے تشبیہ دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فرقہ وارانہ فسادات بلکہ یہ کھلم کھلا مسلم کش دہشت گردی اور فساد ہے۔
بی بی سی سی جیسا تنگ نظر ادارہ بھی اپنی رپورٹ میں اس بات کو حذف نہیں کرپایا کہ ضلع نوح کی سڑکوں پر مسلسل کئی دن تک ہندو انتہا پسند دہشتگردوں کا راج رہا جن کے ہاتھوں میں بڑی بڑی تلواریں، لاٹھیاں اور جان لیوا ہتھیار تھے۔اس موقع پر شہر میں جگہ جگہ مسلمان اپنی جان ومال اور ناموس کی حفاظت کے لئے پناہ تلاش کرتے رہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا شہر میں اتنے بڑے پیمانے پر یہ تشدد بھری کاروائیاں اچانک ہوئی ہیں؟ کیا یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے؟ کیا انتظامیہ اور علاقہ کی خفیہ ایجنسیاں اس طرح کے حالات سے باخبر تھیں؟ کیا حکومت کی جانب سے مسلمانوں کا تحفظ کیا جا سکتا تھا؟یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت ہریانہ میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے بعد اذہان میں جنم لے رہے ہیں۔
ان تمام سوالات کا جواب حاصل کرنے سے پہلے یہاں پر بھارت میں حکومت کرنے والی جماعت بی جے پی سے متعلق حقائق بیان کرنا ضروری ہیں۔ بھارتیہ جنیتا پارٹی جس کا قیام سنہ1919ء میں برصغیر میں عمل میں لایاگیا تھا۔ اس جماعت کے قیام کے ساتھ منشور کی اولین سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ برصغیر یا ہندوستا ن میں پہلے مسلمان کی آمد سے لے کر آخری مسلمان کی موجودگی تک مسلمانوں کو قتل کیا جائے گا اور ہندوستان سے نکال دیا جائے گا۔اس طرح کا منشور رکھنے والے جماعت آج کل ہندوستان میں حکومت کر رہی ہے۔ موجودہ وزیر نریندر مودی بھی اسی جماعت کے سرغنہ ہیں۔ بلکہ ماضی میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی قیادت بھی کر چکے ہیں اور سیکڑوں مسلمانوں کے قاتل ہیں۔گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد سے ہندوستان اور دنیا بھر میں نیرندر مودی کو گجرات کا قصائی کہا جاتا ہے۔ٹھیک اسی طرح سے جس طرح سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایریل شیرون کو صابرہ اور شاتیلا کے کیمپوں میں فلسطینیوں کا بے رحمانہ قتل عام کرنے پر قصائی کا لقب دیا گیا تھا۔
دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم کش فسادات کی ابتداء ت ہندؤں کے مذہبی تہوار سے شروع ہوئی ہیں۔ جس کے آغاز پر ہی مسلمانوں کے خلاف بیانات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ اس تمام تر مہم کی سرپرستی بی جے پی اور آر ایس ایس جیسے شدت پسند جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مسلم کش دہشت گرد عناصر کر رہے تھے۔
ہندوستان کے سیاسی حلقوں میں موجود معتدل سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ کوئی بھی موقع اتھ سے نہ جانے دیں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں لہذا ایسا لگتا ہے کہ مذہبی تہوار کی آڑ میں کہ جب عبادت کی غرض سے اچھی خاصی ہندو عوام بھی جمع ہو جائے گی ایسے موقع پر مسلمان اکثریتی علاقوں میں دھاوا بولا جائے اور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔
سیکورٹی سے متعلق تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ دہلی میں کام کرنے والی خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کو پہلے سے ایسے واقعات کا علم تھا کیونکہ یاترا سے قبل ہی ایک متنازعہ ویڈیو بیان سامنے آ چکا تھا جو مسلمانوں کے خلاف تھا اور پھر بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہریانہ اور گرد ونواح کے اضلاع میں مسلمانوں کی جان ومال خطرے میں ہے۔
تمام تر سوالات کے جوابات سے زیادہ اہم سوال اس وقت یہ ہے کہ کیا ہندوستان میں دیگر مذاہب کے لوگ محفوظ ہیں؟ کیا مسلمانوں کے علاوہ ہندوستان میں بسنے والے عیسائی، سکھ اور اسی طرح دلت ان انتہا پسند عناصر سے محفوظ ہیں؟ بہت سے سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی رائے میں ہندوستان میں تمام اقلیتی مذاہب کو خطرات لا حق ہے اور یہ سب کچھ حکومتی جماعت کی سرپرستی میں انجام دیا جا رہاہے۔
ہندوستان جو دنیا بھر میں خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہتا ہے اس کی جمہور کا عالم یہ ہے کہ دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کے رحم و کرم پر ہے۔ ہندوستانی حکومت کی اپنی حالت یہ ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔انسانی حقوق کی بد ترین پامالی ہندوستان میں انجام دی جا رہی ہے۔ہندوستان حکومت جو پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اب مسلم کش فسادات کی آڑ میں پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف کاروائیوں کی سرپرستی میں ملوث ہے۔ عالمی برادری کا شرمناک کردار بھی قابل مذمت ہے کہ جس نے تاحال ہندوستان میں مسلم کش فسادات اور دہشت گرد انہ کاروائیوں پر ہندوستان حکومت کی سرزنش نہیں کی ہے۔