مقبوضہ بیت المقدس(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیلی حکام نے ہسپانوی سماجی کارکن ریس ریگو سیرفیلا کو شدید دباؤ اور اذیت کے تحت ایک جعلی اعتراف نامے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جس میں اس پر الزام لگایا گیا کہ اس نے ایک اسرائیلی جیلر پر حملہ کیا تھا۔ بعد ازاں قابض اسرائیلی استغاثہ نے اس الزام کو کم کر کے محض ’چھونے‘ تک محدود کر دیا، جبکہ سیرفیلا نے واضح طور پر کہا کہ اس نے اپنے اوپر اور اپنے ساتھیوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف صرف اپنا دفاع کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق ریس ریگو سیرفیلا کو آج اتوار کو اردن کے راستے ملک بدر کیے جانے کا امکان ہے۔ ان کی ملک بدری کل ہفتے کو ہونا تھی لیکن اسے مؤخر کر دیا گیا۔
سیرفیلا کو گیارہ روز قبل صحرائی علاقے کی بدنام زمانہ النقب جیل میں قید کیا گیا تھا۔ وہ ان غیرملکی رضاکاروں میں شامل تھیں جنہوں نے اس ماہ کے آغاز میں غزہ کے محاصرے کو توڑنے کے لیے روانہ ہونے والے گلوبل صمود فلوٹیلا میں حصہ لیا تھا۔ قابض اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی پانیوں میں اس بیڑے پر حملہ کر کے تمام کارکنان کو حراست میں لے لیا تھا۔
قانونی ذرائع کے مطابق سیرفیلا کا مقدمہ دیگر غیرملکی کارکنوں سے مختلف نوعیت اختیار کر گیا ہے، کیونکہ بیشتر کو بغیر کسی فوجداری الزام کے وطن واپس بھیج دیا گیا، جبکہ اس کے خلاف جان بوجھ کر مقدمہ کھولا گیا تاکہ قابض اسرائیل کی درندگی کو چھپایا جا سکے۔
سیرفیلا کے وکیل ہائل ابو غرارہ نے بتایا کہ قابض اسرائیلی عدالت نے ان کی رہائی کے لیے دس ہزار شیکل (تقریباً تین ہزار ڈالر) جرمانہ عائد کیا۔
انہوں نے بتایا کہ قابض استغاثہ نے ’کاٹنے‘ کے الزام سے پسپائی اختیار کر لی اور ایک نام نہاد ’خدش‘ کی فرد جرم پر اکتفا کیا، ساتھ ہی قید کے دس دنوں کو سزا کا حصہ قرار دیا گیا۔
وکیل ابو غرارہ نے کہا کہ قابض اسرائیل کو اس جھوٹے تصفیے سے ایک فائدہ یہ حاصل ہوا کہ اسے وہ ویڈیوز عدالت میں پیش نہیں کرنی پڑیں جن میں جیلر عملے کے وحشیانہ سلوک کے ناقابل تردید شواہد موجود تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیرفیلا نے انہیں بتایا کہ اسرائیلی جیلروں نے اسے اور دیگر کارکنوں کو بہیمانہ طریقے سے پیٹا، گالیاں دیں اور غیرقانونی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ سیرفیلا کے مطابق اس نے صرف اپنے دفاع میں اور اپنی ایک ساتھی کو بچانے کے لیے مزاحمت کی تھی جسے ایک ہی وقت میں آٹھ اسرائیلی جیلر مار رہے تھے۔
ابو غرارہ نے کہا کہ اسی ظلم اور دباؤ کے باعث اس نے یہ سمجھوتہ قبول کیا، اگرچہ وہ ایسا کرنے پر مجبور تھی۔ اس نے محض وطن واپسی کے لیے الزام قبول کیا نہ کہ قابض اسرائیلی حکام کے جھوٹے دعوؤں کی تصدیق کے طور پر۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک بدری میں تاخیر صرف عدالتی کارروائیوں کی تکمیل اور جرمانے کی ادائیگی سے مشروط ہے۔
سیرفیلا کا کیس ان غیرملکی رضاکاروں کے درمیان سب سے پیچیدہ تصور کیا جا رہا ہے جو غزہ کے محاصرے کو توڑنے کے لیے گلوبل صمود فلوٹیلا میں شریک تھے۔ ان کے تمام ساتھیوں کو بغیر کسی مقدمے یا الزام کے رہا کر دیا گیا مگر اسے قابض اسرائیل نے نشانہ بنایا۔
سیرفیلا کی گواہی دیگر کارکنوں کی گواہیوں سے مطابقت رکھتی ہے جنہوں نے رہائی کے بعد بتایا کہ قابض اسرائیلی فوج نے انہیں گرفتار کرتے وقت غیرانسانی رویہ اختیار کیا، دورانِ حراست ذلت آمیز سلوک کیا اور انہیں بہیمانہ طور پر پیٹا۔
امریکی بھائی عدنان اور ٹور سٹومو، جو اسی فلوٹیلا میں شریک تھے، نے بھی تفصیل سے بتایا کہ قابض اسرائیلی فوج نے بین الاقوامی پانیوں میں ان کے جہازوں پر قزاقی حملہ کر کے فلوٹیلا کے تمام ارکان کو حراست میں لے لیا۔
قابض اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے ان تمام مظالم پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ النقب (کتسیعوت) جیل گئے اور انہیں خوشی ہے کہ فلوٹیلا کے کارکنوں کو دہشت گردوں جیسا سلوک دیا گیا۔ ان کے بقول “جو دہشت گردی کا حمایتی ہے وہ خود دہشت گرد ہے اور دہشت گردوں جیسی ہی سزا کا مستحق ہے”۔
واضح رہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے اس ماہ کے آغاز میں چالیس سے زائد جہازوں پر مشتمل گلوبل صمود فلوٹیلا کو بین الاقوامی پانیوں میں روک لیا تھا جو غزہ کے ظالمانہ بحری محاصرے کو توڑنے کے لیے روانہ ہوا تھا۔ بعدازاں قابض اسرائیل نے آزادی کے لیے سرگرم فریڈم فلوٹیلا کی کئی دیگر کشتیوں کو بھی زبردستی روک لیا۔