Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ کے بزرگ شہری صفائی کے بحران اور جنگی نسل کشی کی ایک اور دردناک تصویر!

غزہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی پٹی میں جہاں موت ہر گلی، ہر گھر اور ہر خواب پر سایہ فگن ہے، وہاں ایک اور اذیت خاموشی سے جاری ہے — ایسی اذیت جو عام نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے، مگر اسے سہنے والوں کے جسم و جاں پر ایسے زخم چھوڑتی ہے جو کبھی نہیں بھرتے۔ یہ اذیت ہے اُن بزرگوں کی، جو اپنی بیماریوں، تنہائی اور محرومی کے ساتھ اب بے یار و مددگار ہیں۔ ان کے پاس نہ علاج ہے، نہ خوراک، اور نہ ہی بنیادی انسانی ضروریات — یہاں تک کہ صفائی اور وقار کی حفاظت کے لیے ضروری لنگوٹ (پیمپر) بھی میسر نہیں۔

جب صفائی بھی ایک محاذ بن جائے

جنگ کے مسلسل سائے اور قابض اسرائیل کی ظالمانہ ناکہ بندی نے طبی و انسانی امداد کو روک کر غزہ میں زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ بزرگوں کے لیے لنگوٹ اب محض صفائی کا سامان نہیں رہے بلکہ ایک فوری طبی ضرورت بن چکے ہیں۔ ان کے بغیر ضعیف جسموں پر زخم پڑتے ہیں، جو ناسور میں بدل جاتے ہیں، خون میں زہر گھولتے ہیں اور آخرکار ایک تکلیف دہ موت کا سبب بنتے ہیں۔

ایک بیٹے کی بے بسی

عرفہ شعبان اپنی بیمار ماں کی تیمارداری کرتے ہوئے لرزتے لہجے میں کہتا ہے:

“میں کپڑے کے ٹکڑے استعمال کر رہا ہوں اور ہر لمحہ دعا کرتا ہوں کہ یہ ماں کے جسم پر کوئی نیا زخم نہ چھوڑیں۔”

وہ بتاتا ہے کہ کئی ہفتوں سے پیمپر کی تلاش میں ہر دکان اور ہر دواخانے کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر ہر جگہ مایوسی ملی۔ کپڑے کے یہ ٹکڑے تکلیف اور الرجی کا باعث بنتے ہیں، اور اسے نہیں معلوم کہ یہ کرب اور کتنی دیر چلے گا۔

جب مجبوری منافع کا موقع بن جائے

اس بحران میں بھی کچھ لوگ غزہ کی تکلیفوں کو نفع کمانے کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ گواہوں کے مطابق بعض دکانوں پر ایک پیمپر 30 شیکل میں فروخت ہو رہا ہے، جبکہ ایک مکمل پیکٹ کی قیمت 600 شیکل (تقریباً 180 ڈالر) وصول کی جا رہی ہے — یہ وہ رقم ہے جو غربت کی انتہا پر زندگی گزارنے والے بیشتر خاندانوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

زخم، زہر اور سست موت

غزہ کی معروف ماہرِ غذائیت ڈاکٹر سعاد عبید کہتی ہیں:

“اس ضرورت کو نظر انداز کرنا لاپروائی نہیں، بلکہ سیدھا سیدھا موت کا فیصلہ ہے۔”

وہ وضاحت کرتی ہیں کہ غیر موزوں کپڑوں یا دیر سے بدلے گئے لنگوٹ زخموں کو جنم دیتے ہیں، جو سڑ کر خون میں زہر ملا دیتے ہیں، خاص طور پر اُن بزرگوں میں جن کی قوتِ مدافعت پہلے ہی کمزور ہے۔ بجلی اور ایندھن کی کمی نے ہوا بھرنے والے گدّے بھی نایاب کر دیے ہیں، جس سے معمولی زخم بھی جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبید کے مطابق، حالیہ دنوں میں بزرگوں کی اموات کی شرح 90 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی جنگی حالات ہیں۔

بیماری، محرومی اور موت کا سایہ

غزہ میں دسیوں ہزار بزرگ نہ صرف لنگوٹ کی کمی کا شکار ہیں بلکہ ذیابیطس، بلڈ پریشر اور دل کے امراض میں بھی مبتلا ہیں۔ ان کے لیے روزمرہ کی ادویات زندگی کی ضمانت ہیں، مگر قابض اسرائیل کی پابندیوں نے ہسپتالوں کو بھی بے بس کر دیا ہے۔

ایک بے حس دنیا کے نام پکار

غزہ میڈیکل ریلیف سوسائٹی کے سربراہ ڈاکٹر بسام زقوت بتاتے ہیں:

“لنگوٹوں کا بحران کئی ماہ سے جاری ہے اور ہر دن کے ساتھ بگڑ رہا ہے۔ گزشتہ چار ماہ سے ایک بھی کھیپ غزہ نہیں پہنچی۔”

انہوں نے بتایا کہ آخری بار دو ہزار لنگوٹوں کے پیکٹ تقسیم کیے گئے، جو صرف 400 بزرگوں کو چند دنوں کے لیے مدد دے سکے۔

“ہم نے اقوام متحدہ سے فوری مدد کی اپیل کی ہے، مگر قابض اسرائیل انسانی ضروریات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ گویا بزرگوں کی عزت اور وقار انسانی حقوق کا حصہ ہی نہیں!”

ضمیر کب جاگے گا؟

لنگوٹ کی کمی محض ایک باب ہے اس طویل داستانِ درد کا، جسے غزہ کے بزرگ، بچے، خواتین، زخمی اور بیمار ہر دن سہہ رہے ہیں۔ سوال وہی ہے: کیا دنیا کو یہ اذیت نظر نہیں آتی؟ کیا عالمی ضمیر لاشوں، سیاہ دھوئیں اور آنسوؤں کی اس بارش سے کبھی بیدار ہو گا؟ یا قابض اسرائیل کا ظلم اسی بے رحمی سے جاری رہے گا؟

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan