غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) وسطی غزہ میں واقع ہسپتال “شہداء الاقصیٰ” کے ایک خاموش گوشے میں ایک سالہ فلسطینی بچی “مکہ صلاح الغرابلی” نے خاموشی سے دم توڑ دیا۔ وہ بھوک اور غذائی قلت سے لڑتے ہوئے زندگی کی جنگ ہار گئی۔ اس کی موت قابض اسرائیل کے مسلط کردہ قحط اور عالمی ضمیر کی مجرمانہ خاموشی کی ایک زندہ شہادت ہے، جو نہ انسانیت کے ناطے خوراک کی فراہمی یقینی بنا سکا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو اپنا کردار ادا کرنے دیا۔
ننھی مکہ کو بچانے کی بے شمار کوششیں کی گئیں، مگر وہ معجزہ نہ ہو سکا۔ جس علاج اور دودھ کی وہ سخت محتاج تھی وہ میسر نہ تھا۔ معمولی ادویات بھی ناپید تھیں، کیونکہ قابض اسرائیلی محاصرے نے صحت کا نظام مفلوج کر دیا ہے اور زندگی بچانے والے امدادی سامان کی ترسیل پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔
غزہ کے حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق مکہ ان ہزاروں بچوں میں سے ایک تھی جن کی جانیں غذائی قلت کے باعث خطرے میں ہیں۔ اسے ایسے بچوں کے لیے مخصوص خوراک درکار تھی جو شدید غذائی کمی یا ہاضمے کے مسائل کا شکار ہوں، لیکن وہ محض ایک خالی ہسپتال کے ٹھنڈے بستر پر بے بسی سے لیٹی رہی، مدد کی منتظر۔
مکہ کی موت سے قبل بنائی گئی ایک ویڈیو میں وہ خاموشی سے ہسپتال کے بستر پر لیٹی نظر آتی ہے۔ اس کے کمزور جسم پر بیماری کے نشان واضح تھے، کمر پر سوجن اور لالی، جو کمزور مدافعتی نظام اور غیرانسانی حالات کی علامت تھی۔ اس کا بدن مرجھا گیا تھا، سینہ دب گیا تھا، پیٹ خوفناک حد تک پھول چکا تھا۔ اس کی دھنسی ہوئی آنکھیں وہ سب کچھ کہہ رہی تھیں جو کوئی نومولود زبان سے نہ کہہ سکے: بھوک کا درد اور سسکتی موت۔
ایک سال کی چھوٹی سی عمر میں مکہ دنیا سے چلی گئی، جس میں اس نے کچھ نہ پایا، سوائے تکلیف کے۔ ایک ایسی دنیا جس میں خوراک ایک خواب بن چکی ہے اور دودھ ایک ایسی عیاشی ہے جس تک محصور انسانوں کی رسائی ممکن نہیں۔
مکہ، ان 89 بچوں میں سے ایک تھی جنہیں عالمی برادری نے تنہا چھوڑ دیا۔ اقوام متحدہ نے غزہ کو “شدید غذائی قلت کے دہانے” پر قرار دیا ہے، کیونکہ وہ تین اہم اشاریوں خوراک کی کمی، غذائی قلت اور موت کو عبور کر چکی ہے۔ مگر دنیا آج بھی خاموش ہے، اور مجرمانہ تغافل جاری ہے۔
سنہ 1919ء میں جنگ عظیم اول کے بعد قائم کی گئی “کمیٹی برائے ذمہ داری” کے مطابق شہریوں کو دانستہ بھوکا رکھنا، جنگی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور بین الاقوامی قانون کی سنگین پامالی ہے۔ اسی اصول کو عالمی فوجداری قانون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ عالمی فوجداری عدالت کے بنیادی قانون میں واضح کیا گیا ہے کہ “شہریوں کو دانستہ بھوکا رکھنا بین الاقوامی جنگوں میں ایک جنگی جرم ہے”۔
یہی اصول وہ قانونی بنیاد ہے جس کے تحت قابض اسرائیل کو عالمی فوجداری عدالت اور عالمی عدالت انصاف میں مقدمات کا سامنا ہے، بالخصوص غزہ میں شہریوں کو بھوکا رکھ کر نسل کشی کے الزام کے تحت۔
درحقیقت “شہریوں کو بھوکا رکھنا” وہ پہلا جرم ہے جو عالمی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے 20 مئی سنہ2024ء کو، قابض اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور اس کے سابق وزیر جنگ یوآف گلینٹ کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی بنیاد بنایا۔ ان پر “نسل کشی اور/یا دانستہ قتل، بشمول بھوک کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں” جیسے جرائم کا الزام ہے، جو ایک ریاستی پالیسی کے تحت فلسطینی شہریوں کے خلاف وسیع اور منظم حملے کے تناظر میں کیے گئے۔
عالمی خاموشی اور صہیونی درندگی
مکہ کی المناک موت ایک بڑے اور خطرناک تناظر کا حصہ ہے ۔عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اور بعض طاقتوں کا کھلا گٹھ جوڑ۔ یورومیڈکے سربراہ رامی عبدہ کہتے ہیں کہ “غزہ میں جاری مظالم، صرف انسانی سانحہ نہیں بلکہ بدترین اخلاقی اور سیاسی خیانت کا نمونہ ہیں”۔
رامی عبدہ نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ “آج کی دنیا میں کوئی دوسرا تحریکی جدوجہد اتنی کھلی ہوئی خیانت کا شکار نہیں ہوا جتنا کہ فلسطینی جدوجہد اور کوئی دوسری نسل کشی اتنے ڈھٹائی بھرے تواطؤ اور خاموشی کے سائے میں جاری نہیں رہی”۔
انہوں نے کہا کہ دُنیا نے دو سال تک قابض ریاست کے بیانیے کو گلے لگایا، اسے سیاسی اور اخلاقی تحفظ فراہم کیا، جس سے اسے بے دھڑک مظالم جاری رکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران نہ اس کے جنگی وسائل کی ترسیل رکی اور نہ اس پر پابندیاں لگیں۔
عبدہ نے مزید کہا کہ وہ مغربی ممالک جو انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کے دعویدار ہیں وہی عدالتوں میں انصاف کی راہ میں رکاوٹیں بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ “دو سال کی منظم نسل کشی کے بعد، عالمی برادری کا سب سے بڑا کارنامہ صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کی کمزور تجاویز پر بات کر رہا ہے وہ بھی مکمل اطاعت اور حقوق سے دستبرداری کی شرط پر”۔
انہوں نے یورپی یونین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “جب غزہ کے شہر تباہ کیے جا رہے تھے ہزاروں افراد قتل ہو رہے تھے، تب بھی یورپی یونین نے محض اپنی اسرائیل کے ساتھ شراکت داری پر ’نظرثانی‘ کا اشارہ دیا، وہ بھی بے معنی۔ حتیٰ کہ سائنس کے ایک معمولی پروگرام ’یورپ کا افق‘ کی معطلی کی علامتی تجویز کو بھی صرف دس ممالک کی حمایت حاصل ہوئی”۔
تحریک کی کمزوری اور عوامی بے حسی
عالمی سطح پر فلسطین سے ہمدردی کے جذبات ضرور ابھرے، لیکن ان کا جوش وقتی ثابت ہوا۔ رامی عبدہ کے مطابق “یہ عالمی ضمیر کی اخلاقی ناکامی ہے کہ مظاہروں کو باقاعدہ اور دیرپا عوامی دباؤ میں نہ بدلا جا سکا۔ نہ مزدوروں کی ہڑتالیں ہوئیں، نہ عوامی مزاحمتی تحریکیں، نہ مسلسل دباؤ کی مہمات”۔
عبدہ نے واضح کیا کہ “آج، جب نسل کشی کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، عالمی برادری خوراک کی انسانی بنیادوں پر رسائی، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کا تحفظ، یا ’انروا‘ کے وجود کو یقینی بنانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ یہ صہیونی منصوبے کے اُس خواب کی تعبیر ہے جس میں انروا کا وجود ہی ناقابل برداشت ہے”۔
انہوں نے خبردار کیا کہ عالمی خاموشی قابض اسرائیل کو مزید خونریز منصوبے بنانے پر اکسا رہی ہے، جیسے کہ غزہ کی زمینوں کا قبضہ، مغربی کنارے اور بیت المقدس پر مکمل کنٹرول اور دوبارہ آبادکاری جیسے اقدامات۔
رامی عبده کے مطابق موجودہ مذاکراتی تجاویز فلسطینیوں کے حقوق کا کھلم کھلا مذاق ہیں۔ “یہ تجاویز نہ تو خودمختاری دیتی ہیں، نہ عزت، نہ تاریخ، نہ سیاست۔ یہ ایک ایسی ریاست کا وعدہ کرتی ہیں جو اسلحہ سے محروم، اطاعت گزار، اور حقوق سے مکمل دستبردار ہو چکی ہو”۔
رائے عامہ کی حرکیات اور بھول جانے کا خطرہ
رامی عبده نے کہا کہ “رائے عامہ کی نفسیات یہ بتاتی ہے کہ ہمدردی وقتی ہوتی ہے اگر اسے منظم کوششوں سے تازہ نہ رکھا جائے تو یہ ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انصاف کی سب سے واضح جدوجہد بھی دب سکتی ہے، اگر وہ خبروں سے غائب ہو جائے”۔
انہوں نے سنہ1982ء میں صبرا و شتیلا کے بعد ابھرنے والے عالمی غم و غصے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “یہ غصہ جلد ہی بھلا دیا گیا اور قابض اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال ہو گئے۔ سنہ2008ء میں بھی غزہ کے خلاف وحشیانہ حملے کے بعد کچھ عرصہ ہمدردی نظر آئی، مگر وہ بھی چند ہفتوں میں ماند پڑ گئی”۔
انھوں نے آخر میں کہاکہ “آج جبکہ ’نسل کشی‘ کا لفظ خود غزہ کے ساتھ جڑ چکا ہے ہمیں خبردار رہنا ہو گا کہ یہ بھی ماضی کی طرح فراموش نہ ہو جائے۔ جیسے میانمار میں روہنگیا کے ساتھ ہوا، یا نامیبیا میں سنہ1971ء میں جب عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کے قبضے کو غیرقانونی قرار دیا، مگر دنیا نے اس فیصلے کو دہائیوں تک نظر انداز کیے رکھا”۔
انہوں نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہاکہ “انصاف خود سے نہیں آتا، نہ ہی آن لائن ہیش ٹیگز اور جذباتی پوسٹیں انقلاب لاتی ہیں۔ اصل جیت اس وقت ممکن ہے جب قومیں موقع سے فائدہ اٹھائیں، مسلسل دباؤ ڈالیں اور اپنی آواز کو منظم طریقے سے زندہ رکھیں۔ دنیا بھولنے والی جگہ ہے، اگر آج ہم نے یہ لمحہ نہ اپنایا تو کل کوئی بھی اسے یاد نہیں رکھے گا”۔