غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی طرف سے جبری نقل مکانی کے قابض اسرائیلی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے فلسطینی قوم نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ دسیوں ہزار شہداء اور زخمیوں کے خون بہایا گیا مگر فلسطینی قوم نے اپنی سرزمین کو چھوڑنے کا کوئی منصوبہ قبول نہیں کیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
ایک بار پھر فلسطینیوں کے خلاف اس نئے سازشی منصوبے کو آگے لے کر بڑھ رہے ہیں۔ وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ فلسطینی اپنی سرزمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں ایک مہاجر کے طور پر رہنا قبول کرلیں گے، مگر و ہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ فلسطینی اپنے وطن سے اپنی جانوں سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں۔
ٹرمپ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کا نیا علم بردار
ایک ایسے وقت میں جب لاکھوں فلسطینی شمالی غزہ کی پٹی میں اپنے تباہ شدہ گھروں کو واپس ہو رہے ہیں۔ صہیونی ریاست طاقت کے اندھے استعمال کے باوجود انہیں بے گھر کرنے کے منصوبے میں ناکام رہی ہے۔ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی ا قابض اسرائیلی فوج نے تباہی کی جنگ کے آغاز میں اعلان کیا تھا۔ اس لیے یہ نیا نہیں۔ ٹرمپ نے ایسے بیانات دیے جن میں اس نے کہا کہ اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ ایک فون کال میں غزہ کی پٹی سے دس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو ہمسایہ ممالک میں منتقل کرنے کے امکان کے بارے میں بات کی ہے۔
ٹرمپ نے پچیس جنوری ہفتے کی شام کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “میں نے اردن سے مزید فلسطینیوں کو لے جانے کو کہا کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ غزہ افراتفری کا شکار ہے۔یہ ایک المناک صورتحال ہے جس پر توجہ دی جانی چاہیے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے مصر میں فلسطینیوں کی رہائش کے امکان پر بات کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ ’’آپ ڈیڑھ ملین لوگوں کی بات کر رہے ہیں۔ہم صرف اس ساری چیز کو ختم کر دیں گے‘‘۔
اکتوبر 2023 ءمیں غزہ کی پٹی پر تباہی کی جنگ کے آغاز میں اسرائیلی حکام نے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کو زبردستی جزیرہ سینا تک بے گھر کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ انہوں نے بمباری کے دوران ہزاروں فلسطینیوں کو شمالی غزہ سے نکال کر رفح کی طرف نقل مکانی پرمجبور کیا۔ ان کا دانہ پانی بند کرکے فاقہ کشی پرمجبور کیا، شدید سردی میں انہیں ٹھٹھرنے پرمجبور کیا ،ہسپتالوں کو تباہ کرکے انہیں علاج معالجے سے محروم کیا لیکن فلسطینی عوام مزاحمت کے ساتھ رہے۔ انہوں نے جبری ھجرت کی صہیونی سازش مسترد کردی۔ دوسری طرف مصر نے بھی فلسطینیوں کی جبری ھجرت کو قبول نہیں کیا ۔ مصر نے فلسطینی ریاست کے اصولی موقف پر قائم رہے۔
اسرائیل کی پرانی سازش نئے انداز میں پیش
ٹرمپ کے بیانات اسرائیل کے پرانے منصوبوں سے مطابقت رکھتے ہیں جس کا مقصد غزہ کو اس کی فلسطینی آبادی سے خالی کرنا ہے۔ ان کی زمین پر ان کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے سب سے بڑے غیر انسانی جبری بے گھر آپریشن کے حصے کے طور پر وہاں پر جنگ مسلط کرنا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بیانات ایک ایسے حساس وقت میں سامنے آئے ہیں، جب جنگ بندی شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد بے گھر ہونے والوں کو ان کی رہائش گاہوں پر واپسی کے اقدام کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پٹی بڑے پیمانے پر تباہی سے دوچار ہے۔ تباہ کن اسرائیلی جنگ نے غزہ کی 70 فیصد سے زیادہ عمارتیں تباہ کر دیں۔
فلسطینی اور عرب ممالک کا موقف
فلسطینیوں کے تمام نمائندہ طبقات، حکومتی اور عوامی اداروں نے ہمیشہ جبری نقل مکانی کے منصوبوں کو مسترد کیاہے۔ چاہے کچھ بھی ہو۔ فلسطینی سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ محض فلسطینی کاز کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل کی سابقہ کوششوں کی تکرار ہے۔
اگرچہ مصر اور اردن کی جانب سے ٹرمپ کے بیانات پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم دونوں ممالک نے اس سے قبل اس نظریے کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اس سے قبل فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے خیال کو ایک بڑے منصوبے کا حصہ قرار دیا تھا۔ فلسطینی آبادی کی جبری نقل مکانی پر اردن نے بھی سخت رد عمل دیا ہے۔ شاہ عبداللہ دوم نے زور دیا کہ فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی کوئی بھی کوشش “سرخ لکیر” ہے۔
اسرائیل کے ہاتھوں سے جبری نقل مکانی
اسرائیلی امور کے ماہر ڈاکٹر ابراہیم ابو جابر نے نشاندہی کی کہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے منصوبے اسرائیل میں ہروقت موجود رہےہیں۔”اسرائیل میں ہر ایک کا مقصد فلسطینیوں کی ممکنہ بڑی تعداد کو بے گھر کرنا ہے۔ یہ تعداد لاکھوں میں ہونے کا ہدف ہے۔ نیتن یاہو شروع سے ہی ٹرمپ کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ میں اس بات کو مسترد نہیں کرتا کہ یہ خیال نیتن یاہو کے دفتر سے آیا ہو گا”۔
ابو جابر نے مزید کہا کہ “اسرائیلی حکومت کے درمیان دائیں سے لے کر بائیں بازو کے کچھ طبقات تک اتفاق رائے ہے کہ نقل مکانی ہی تنازعہ کا بہترین حل ہے، لیکن یہ حل کبھی بھی روبہ عمل نہیں ہوسکتا کیوں کہ فلسطینی قوم اسے کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے‘‘۔
فلسطینی عوام اپنی سرزمین سے وابستگی کا ثبوت دیں
غزہ کی پٹی میں فلسطینی جن میں سے ہزاروں کی تعداد میں کئی مہینوں سے بے گھر ہونے کے بعد غزہ شہر کی واپسی کے منتظر، صلاح الدین اور الرشید کی سڑکوں پر کئی دنوں سے قطار میں کھڑے ہیں، بے گھر ہونے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرنے کی تصدیق کرتے ہیں۔ غزہ کو چھوڑنا تو درکنار فلسطینی سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی کے حق پر قائم ہیں۔
گذشتہ15 مہینوں کے دوران قابض فوج نے درجنوں نقل مکانی کے احکامات اور خونی حملوں کے ذریعے غزہ اور شمالی گورنری کو خالی کرنے کی کوشش کی گئی لیکن لاکھوں افراد نے قیام پر اصرار کیا اور نقل مکانی کے منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے موت اور بھوک کوقبول کیا مگر اپنا وطن نہیں چھوڑا۔
برسوں کے دوران غزہ نے اسرائیلی حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے بے مثال ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے، کیوں کہ فلسطینی اپنی سرزمین پر ثابت قدم ہیں۔
ماہر ابو جابر زور دیتے ہیں کہ “اس منصوبے پر عمل درآمد آسان نہیں ہے، کیونکہ یہ مستقبل کے کسی بھی تصفیے سے متصادم ہوگا۔ فلسطینی عوام جبری نقل مکانی کو مسترد کرتے ہیں، چاہے حالات کچھ بھی ہوں۔ ہزاروں لوگوں نے ہجرت پر شہادت کو ترجیح دی۔ وہ یہ قبول نہیں کریں گے کہ ان کی سرزمین دوسروں کے پاس جائے۔
وقتاً فوقتاً نقل مکانی کی کوششوں کے باوجود فلسطینی اپنی سرزمین پر اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے ثابت قدم ہیں۔ وہ مزاحمت کے راستے پر چلتے ہیں۔ ان کا عزم ہے کہ وہ اپنے قومی حقوق سے مذاکرات یا دستبردار نہیں ہوسکتے۔